سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری کشیدگی ختم کرنا ان کے لیے بہت آسان کام ہے۔ ان کے مطابق اگر دونوں ممالک مذاکرات پر آمادہ ہوں تو وہ ثالثی کے ذریعے اس مسئلے کو جلد حل کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہیں تنازعات کے حل کا وسیع تجربہ ہے اور وہ اس معاملے میں بھی کامیاب کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات میں بارڈر سیکیورٹی، تجارت اور نقل و حرکت کے مسائل کے باعث کشیدگی دیکھی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کے اس دعوے نے عالمی سطح پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا امریکہ ایک بار پھر خطے میں مصالحتی کردار ادا کرے گا یا نہیں۔
ٹرمپ کے مؤقف کی وضاحت
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ جنگوں کو ختم کرنے کے حامی ہیں اور ان کی پالیسی ہمیشہ مذاکرات اور عملی حل پر مبنی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان اور افغانستان دونوں ان کے کردار کو قبول کریں تو وہ ایک مضبوط ثالثی پلان پیش کر سکتے ہیں جو امن کی بحالی میں مددگار ثابت ہوگا۔ ماہرین کے مطابق ٹرمپ کا یہ بیان ان کی بین الاقوامی سیاست میں دوبارہ سرگرم ہونے کی خواہش کا اظہار بھی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کو ایک بار پھر عالمی سطح پر امن کے قیام کے لیے فعال قوت کے طور پر پیش کیا جائے۔
آسٹریلیا کی معروف تیراک اور گولڈ میڈلسٹ آریارنے ٹٹمس کا اچانک ریٹائرمنٹ کا اعلان
ممکنہ اثرات اور ردعمل
ٹرمپ کے اس بیان پر مختلف حلقوں کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ ماہرین نے اسے مثبت قدم قرار دیا ہے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ اس طرح کے بیانات سیاسی مقاصد کے لیے دیے جاتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے حکام کی جانب سے اس بیان پر باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم دونوں ممالک کی حکومتیں خطے میں استحکام کے لیے مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتی رہی ہیں۔ اگر امریکہ واقعی مصالحتی کردار ادا کرتا ہے تو یہ خطے میں امن اور معاشی تعاون کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام فریقین اعتماد سازی اور باہمی احترام کے ساتھ مذاکرات کا عمل آگے بڑھائیں۔