جنوبی ایشیا میں سفارتی توازن ایک نئی کروٹ لے رہا ہے بھارت کی روایتی بالادستی اور نیپال، سری لنکا، بھوٹان، مالدیپ سمیت دیگر ریاستوں پر اثر ورسوخ کے بعد اب بنگلہ دیش کا نیا جھکاؤ پاکستان کی جانب خطے کے سٹریجٹک نقشے میں ایک اہم موڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ٹیلی گراف انڈیا کی تازہ رپورٹ نے بھارتی مقتدر حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش کی پہلی ترجیح بن چکا ہے۔
یہ تبدیلی سیاست کی نئی جہت کی طرف اشارہ ہے اور ماضی کی تلخیوں سے نکل کر حقیقت پسندی، خود مختاری اور علاقائی تعاون پر مبنی سفارت کاری کا آغاز بھی ہے۔
نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اپنے قیام کے چند ماہ بعد ہی خارجہ پالیسی کے خد و خال میں نمایاں تبدیلیاں کی ہیں۔ یہ تبدیلیاں محض رسمی اعلانات نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے قومی مفاد پر مبنی ایک جامع ازسرنو احیاء کی علامت ہے۔ دو دہائیوں بعد پاک بنگلہ دیش مشترکہ اقتصادی کمیشن کا دوبارہ فعال ہونا، دفاعی سطح پر تبادلے، تعلیمی اسکالرشپس کی پیشکش اور سفارتی نرمی کے اشارے سب مل کر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ڈھاکہ اب ایک متوازن اور خود مختار خارجہ پالیسی کے راستے پر گامزن ہے۔
ٹیلی گراف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے پاکستان کو اپنی سفارتی ترجیحات میں سر فہرست رکھا ہے۔ ڈھاکہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر کے ساتھ ہونے والی ملاقات غیر معمولی گرم جوشی پر مبنی تھی جس میں مستقبل کے تعاون پر نہایت مثبت گفتگو ہوئی۔ یہ وہی بنگلہ دیش ہے جو ماضی میں بھارتی اثر و رسوخ کے دائرے میں گھرا ہوا تھا لیکن اب وہ کھلے الفاظ میں یہ موقف اپنا رہا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کا محور صرف بنگلہ دیش کا قومی مفاد ہوگا۔ یہ اعلان ڈھاکہ کی خود اعتمادی کا مظہر ہے اور خطے میں طاقت کے توازن کو ازسرنو متعین کرنے کا عندیہ بھی دیتا ہے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مشترکہ اقتصادی کمیشن کی بحالی سے 865 ملین ڈالر کی دو طرفہ تجارت کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ پاکستان کی صنعتی مصنوعات، ٹیکسٹائل مشینری، فارماسیوٹیکل مصنوعات اور زرعی ٹیکنالوجی بنگلہ دیش کی تیزی سے بڑھتی معیشت کے لیے ایک بڑی کشش رکھتی ہیں۔ دوسری جانب بنگلہ دیش کے ریڈی میڈ گارمنٹس اور جوٹ مصنوعات پاکستان کے لیے قیمتی درآمدی متبادل فراہم کر سکتی ہیں۔ یہ باہمی تجارت دونوں ملکوں کی معیشتوں کو تقویت دینے کے علاوہ جنوبی ایشیائی اقتصادی تعاون کے خواب کو ایک عملی شکل دینے میں مددگار ہوگی۔
پاکستان کی جانب سے 500 تعلیمی اسکالرشپس اور سول افسران کے لیے ٹیکنیکل ٹریننگ پروگرام کی پیشکش بنگلہ دیش کے انسانی وسائل میں ایک تاریخی سرمایہ کاری کے مترادف ہے۔ یہ اقدام صرف تعلیمی تعاون نہیں بلکہ اعتماد سازی کی ایک مضبوط بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) میں بنگلہ دیشی طلبہ کے داخلے کا بڑھتا رحجان بھی اس باہمی تعاون کا عملی اظہار ہے۔
بنگلہ دیش کی فوج نے حالیہ برسوں میں جدید عسکری تربیت، خود کفالت اور غیر جانبدارانہ تزویراتی پالیسی کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ پاکستان کے ساتھ اعلی سطحی دفاعی تبادلے، مشترکہ تربیتی مشقیں اور تکنیکی تعاون اس رجحان کو مزید مضبوط بنائیں گے۔ ڈھاکہ کی عسکری قیادت کا یہ فیصلہ دراصل کسی ایک طاقت پر انحصار کم کرنے کی جانب ایک حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے۔ پاکستان کی پیشہ ورانہ عسکری تربیت اور اقوام متحدہ کے امن مشنز میں مشترکہ خدمات دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد اور ہم آہنگی کو فروغ دے رہی ہیں۔
دونوں حکومتوں نے سرکاری پاسپورٹ رکھنے والے شہریوں کے لیے ویزا فری پالیسی کے نفاذ پر اتفاق کیا ہے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے مابین اعتماد سازی اور ادارہ جاتی روابط کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس پالیسی سے سرکاری سطح پر ملاقاتوں میں آسانی پیدا ہونے کے ساتھ ثقافتی، تعلیمی اور سرکاری وفود کے تبادلوں میں بھی نئی روح پیدا ہوگی۔
کراچی اور چٹاگانگ کے درمیان براہ راست سمندری رابطے کی بحالی کو ماہرین نے جنوبی ایشیا کی تجارتی سرگرمیوں کے لیے گیم چینجر قرار دیا ہے۔ یہ روابط نہ صرف اشیاء کی نقل و حمل کے وقت اور لاگت میں نمایاں کمی لائے گا بلکہ علاقائی کوریڈورز اور ٹرانسپورٹ نیٹ ورکس کو بھی وسعت دے گا۔ سی پیک کے تحت گوادر-چٹاگانگ ریجنل ٹریڈ روٹ کا تصور مستقبل میں جنوبی ایشیا کی معاشی یکجہتی کا مرکز بن سکتا ہے۔
ماضی کے اختلافات کے باوجود پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام کے درمیان ثقافتی اور تاریخی رشتے اب بھی گہرے ہیں۔ ادبی میلوں، فلم فیسٹیولز اور طلبہ کے تبادلوں کے پروگراموں کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان پیپل ٹو پیپل کنٹیکٹ کو تقویت دی جا رہی ہے۔ یہ اقدامات ماضی کی تلخیوں کو کم کر کے پائیدار ہم آہنگی اور مفاہمت کی راہ ہموار کریں گے جو خطے کے امن کے لیے ناگزیر ہے۔
بنگلہ دیش کا پاکستان کے ساتھ بڑھتا تعاون دراصل ایک موثر جغرافیائی توازن کی حکمت عملی ہے۔ ڈھاکہ یہ بخوبی سمجھتا ہے کہ خطے میں کسی ایک طاقت خصوصاً بھارت پر انحصار اس کی خود مختاری کے لیے خطرہ بن سکتا ہے لہٰذا وہ اب پاکستان، چین اور دیگر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو وسعت دے کر ایک کثیر جہتی تزویراتی شراکت داری تشکیل دے رہا ہے۔ یہ تبدیلی بھارت کے لیے واضح پیغام ہے کہ جنوبی ایشیا میں طاقت کی اجارہ داری اب ممکن نہیں۔
ڈاکٹر محمد یونس حکومت کا یہ فیصلہ کہ وہ ماضی کی تلخیوں سے نکل کر تعاون اور حقیقت پسندی پر مبنی تعلقات استوار کرے، ایک بالغ اور خود اعتماد سفارتی ویژن کی علامت ہے۔ یہ ویژن نہ صرف ڈھاکہ بلکہ پورے خطے کے لیے استحکام، باہمی احترام اور تنوع پر مبنی تعلقات کا نیا باب کھولتا ہے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے روابط دو طرفہ اعتماد کو بحال کرنے کے علاوہ جنوبی ایشیا میں امن و تعاون کی نئی راہیں بھی کھول رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جب ماضی کے اختلافات پر مستقبل کی ضرورتوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ پاکستان اس عمل کو خوش آئند، مثبت اور خطے کے استحکام کے لیے اہم پیشرفت سمجھتا ہے۔ اگر یہ تعاون اسی جذبے کے ساتھ جاری رہا تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے تاریخی رشتے ہی مضبوط نہیں ہوں گے بلکہ اقتصادی، عسکری اور ثقافتی شراکت داری کے حقیقی اتحادی بن سکتے ہیں۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر سید حمزہ حسیب شاہ ایک تنقیدی مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایشیا اور جغرافیائی سیاست پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں اور علمی اور پالیسی مباحثوں میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔View all posts

