Nigah

پاکستان کا استحکام امریکی مفادات کے لیے ناگزیر

nigah foreign affairs usa pakistan minister gold price

پاکستان کا استحکام محض ایک علاقائی معاملہ نہیں رہا بلکہ ایک عالمی اسٹریٹجک ضرورت بن چکا ہے۔ وہ ملک جو ایک طرف چین، بھارت، ایران اور افغانستان جیسے حساس جغرافیائی ہمسایوں کے درمیان واقع ہے اور دوسری طرف جوہری صلاحیت سے لیس بڑی مسلم آبادی کا حامل اور توانائی کے گزرگاہوں کے عین وسط میں موجود ہے، اس کا غیر مستحکم ہونا کسی بھی عالمی طاقت کے لیے ایک سنگین خطرہ سے کم نہیں۔ خاص طور پر امریکہ کے لیے، جو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ مشرقِ وسطیٰ اور وسط ایشیا میں اپنے اسٹریٹجک مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے توازنِ طاقت کی پالیسی پر کاربند ہے۔ پاکستان کا استحکام ایک ناگزیر حقیقت بن چکی ہے۔

پاکستان کا جغرافیہ ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کے لیے دلچسپی کا محور رہا ہے، لیکن آج کے حالات میں یہ دلچسپی محض جغرافیائی نہیں بلکہ عملی، اقتصادی اور سلامتی کے پہلو سے جڑی ہوئی ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا سب سے اہم جز سی پیک پاکستان کے راستے سے گزرتا ہے۔ یہ منصوبہ چین کو بحیرہ عرب تک براہ راست رسائی دیتا ہے اور مشرقِ وسطیٰ و افریقہ کے ساتھ تجارتی نیٹ ورک کا نیا خاکہ پیش کرتا ہے۔

اگر پاکستان کسی بھی سیاسی یا معاشی بحران کا شکار ہوتا ہے تو اس کے اثرات چین سے لے کر یورپ تک پھیل سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں امریکہ کے انسدادِ دہشت گردی کے اہداف، تجارتی بہاؤ، توانائی کی ترسیل اور عالمی سپلائی چین سب متاثر ہوں گے۔ مزید یہ کہ ایک غیر مستحکم پاکستان کی صورت میں خطے سے لوگوں کی بڑی تعداد میں امریکہ اور یورپ تک ہجرت کا سلسلہ بڑھ جائے گا، ویسے ہی جیسے مشرقِ وسطیٰ کی جنگوں کے بعد ہوا۔

امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد جنوبی ایشیا کی سٹریٹجک صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ پاک افغان پٹی ایک بار پھر عسکریت پسند گروہوں کی سرگرمیوں کا مرکز بن گئی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی میں شمولیت امریکی مفادات کے لیے کلیدی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ پاکستان نہ صرف طالبان حکومت کے ساتھ رابطوں کا منفرد ذریعہ ہے بلکہ خطے میں انتہا پسند نیٹ ورکس کے پھیلاؤ کو روکنے کی اولین دفاعی دیوار بھی ہے۔

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر

پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی کے تجربات، خواہ وہ آپریشن ضربِ عضب ہو یا ردالفساد، امریکی پالیسی سازوں کے لیے ایک سبق آموز ماڈل بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی فوجی و سفارتی حلقوں میں پاکستان کے ساتھ دوبارہ رابطہ کاری کی ضرورت پر اتفاقِ رائے پیدا ہو رہا ہے۔ اسی تسلسل میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات صرف رسمی نوعیت کی نہیں بلکہ ایک نئے باب کا آغاز بھی ثابت ہوئی۔

2025 کی پاک بھارت سیز فائر نے پاکستان کی سفارتی اہمیت کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسلسل کشیدگی کے باوجود جنگ بندی کے معاہدے میں پاکستان کا کردار ثالثی سے بڑھ کر ضامن کے طور پر سامنے آیا۔ واشنگٹن کے لیے یہ خاص اہمیت رکھتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ایک ایسا ملک موجود ہے جو بحران کی بجائے استحکام کو ترجیح دیتا ہے۔

امریکہ کے لیے یہ سمجھ بوجھ اب واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان کے بغیر کسی بھی خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں، چاہے وہ افغانستان کا امن ہو، کشمیر کا تصفیہ ہو یا بحیرہ عرب کی بحری سلامتی، پاکستان کی شمولیت ہر جگہ ناگزیر ہے۔

امریکی کارپوریٹ مفادات کا ایک بڑا پہلو پاکستان کے استحکام کی اہمیت اور بلوچستان سے جڑا ہے، جہاں دنیا کی چند بڑی معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ریکوڈیک جیسے منصوبے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی توانائی و معدنیاتی سپلائی چین کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم اگر بلوچستان میں بدامنی دوبارہ زور پکڑتی ہے تو اس کے اثرات براہ راست امریکی اور مغربی کارپوریٹ مفادات پر پڑیں گے۔

ریکوڈیک منصوبے میں امریکی سرمایہ کاروں کی شمولیت دراصل واشنگٹن کی اس حقیقت پسندی کا اظہار ہے کہ پاکستان کی معاشی بحالی اور سلامتی عالمی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ پاکستان میں استحکام نہ صرف چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی کا توازن فراہم کرتا ہے بلکہ امریکی کمپنیوں کو توانائی، معدنیات اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں نئی راہیں کھولنے کا موقع دیتا ہے۔ اسی لیے اسلام آباد کی معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور شفافیت براہِ راست امریکی تجارتی تحفظات سے منسلک ہیں۔

امریکہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس وقت چین کا عالمی اقتصادی و عسکری پھیلاؤ ہے۔ سی پیک کے ذریعے چین نے خطے میں اپنی جڑیں گہری کر لی ہیں اور پاکستان اس منصوبے کا بنیادی ستون ہے۔ اگر واشنگٹن نے پاکستان سے فاصلہ اختیار کیا تو وہ دراصل چین کے حق میں خلا پیدا کرے گا، جسے بیجنگ تیزی سے پر کر سکتا ہے۔

پاکستان محتاط سفارتی رویے کے ذریعے چین کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات برقرار رکھتے ہوئے امریکہ سے دوبارہ تعلقات بحال کر رہا ہے، جو دراصل توازن کی پالیسی کا حصہ ہے۔ اسلام آباد سمجھتا ہے کہ اگر امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ازسرنو ترتیب دیا جائے تو یہ نہ صرف دفاع کے لیے بلکہ خطے میں امن اور ترقی کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔

فوجی ساز و سامان کی فروخت، تکنیکی معاونت اور مالی اعانت کا دوبارہ آغاز پاکستان کے دفاعی ڈھانچے کو جدید بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔ امریکہ کے لیے بھی یہ تعلق دو طرفہ مفادات کا حامل ہے۔ پاکستان کے زمینی اور فضائی راستے اب بھی افغانستان اور وسط ایشیا تک رسائی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکہ کی خطے میں براہِ راست فوجی موجودگی کم ہو چکی ہے، لیکن اس کی خفیہ اور لاجسٹک ضروریات بدستور باقی ہیں۔ ایسے میں پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو واشنگٹن کو زمینی رسائی، انٹیلیجنس تعاون اور خطرے میں توازنِ طاقت کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔

پاکستان نے گزشتہ دہائی میں انتہا پسندی کے خلاف غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اگر امریکہ پاکستان میں تعلیم اور سماجی ترقی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو یہ معاشی استحکام اور انسدادِ دہشت گردی کی عالمی کوششوں کے لیے بھی سودمند ہوگا۔

پاکستان اس وقت ایک نازک مگر فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ معاشی بحالی اور دفاعی خودمختاری کے لیے اسے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ امریکہ کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ ماضی کی غلط فہمیوں سے نکل کر شراکت داری پر مبنی تعلقات استوار کرے۔ اسلام آباد نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ کسی کی پراکسی نہیں بنے گا مگر متوازن تعلقات کا خواہاں ضرور ہے۔

جنوبی ایشیا میں استحکام، توانائی کے راستوں کی سلامتی اور عالمی تجارتی بہاؤ کے تحفظ کے لیے پاکستان کے ساتھ شراکت داری واشنگٹن کے لیے ایک عقلمندانہ سرمایہ کاری ہوگی۔ پاکستان کا استحکام اب ایک علاقائی متغیر نہیں بلکہ عالمی توازن کا ضامن ہے۔ ایک ایسا ملک جو ایٹمی صلاحیت رکھتا ہے، چین اور بھارت کے درمیان واقع ہے، اور مشرقِ وسطیٰ سے وسطِ ایشیا تک کا جغرافیائی پل ہے، اس کا عدم استحکام کسی بھی بڑی طاقت کے مفاد میں نہیں۔

امریکہ کے لیے سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اگر وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سٹریٹجک صبر اور دیرپا مشغولیت اختیار کرے تو یہ نہ صرف خطے میں امن بلکہ عالمی استحکام کے لیے بھی سودمند ثابت ہوگا۔ پاکستان نے ہمیشہ بحرانوں کے باوجود اپنے ریاستی ڈھانچے کو قائم رکھا اور آج بھی دنیا کو ایک متوازن اور بااعتماد شراکت داری کی دعوت دے رہا ہے۔ شاید یہی موقع ہے جب واشنگٹن کو سمجھنا چاہیے کہ جنوبی ایشیا میں امن کا دروازہ اسلام آباد سے گزرتا ہے، کابل یا دلی سے نہیں۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • munir nigah

    ڈاکٹر محمد منیر ایک معروف اسکالر ہیں جنہیں تحقیق، اکیڈمک مینجمنٹ، اور مختلف معروف تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیوں میں تدریس کا 26 سال کا تجربہ ہے۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز (DSS) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔