Nigah

پاکستان کا سماجی مذہبی اور ثقافتی اعتدال پسند معاشرہ

قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کے پیغام سے جوڑا

پاکستان کا وجود برصغیر کی تاریخ میں ایک ایسے موقع پر عمل میں آیا جب مذہب، سیاست اور شناخت کے تصورات گہرے تغیر سے گزر رہے تھے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ابتداء سے واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کسی مخصوص گروہ یا مسلک کا ملک نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست ہوگی جہاں ہر شہری کو مذہب، نسل اور جنس سے بالاتر ہو کر برابری، آزادی اور انصاف حاصل ہوگا۔
اسی وژن نے پاکستان کو ایک اعتدال پسند، روادار اور کثیر الثقافتی معاشرہ بننے کی راہ دکھائی۔ ایک ایسا ملک جو علاقائی تناؤ کے باوجود امن، برداشت اور بقائے باہمی کا علم بلند رکھتا ہے۔

پاکستان کا آئین اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق کی مکمل ضمانت دیتا ہے۔ آرٹیکل 20 مذہبی آزادی کو یقینی بناتا ہے جبکہ آرٹیکل 25 مرد و عورت دونوں کے لیے قانون کی نظر میں برابری کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ آئینی ڈھانچہ کسی بھی شہری کے ساتھ مذہب، ذات یا نسل کی بنیاد پر امتیاز کی نفی کرتا ہے۔ یہی آئینی اصول پاکستان کے اعتدال پسند تشخص کی بنیاد ہیں جنہوں نے ریاست کو ایک جامع، شمولیتی اور متوازن سماجی ڈھانچے کی سمت بڑھایا ہے۔

صوفی ازم سے لوک روایات تک پاکستان کی سرزمین صوفیا اور علماء کی روایات سے منور ہے۔ داتا گنج بخش، لال شہباز قلندر، شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور رحمان بابا جیسے صوفیاء نے محبت، انسانیت اور مساوات کا وہ پیغام دیا جس نے برصغیر کے دلوں کو جوڑا۔ انہی خانقاہوں اور درگاہوں سے رواداری، احترام، انسانیت اور امن کا درس عام ہوا۔
آج بھی ملک کے طول و عرض میں لوگ موسیقی، قوالی، میلوں اور ثقافتی میل جول کے ذریعے یہ ورثہ زندہ رکھتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ اپنے انہی ثقافتی رنگوں میں وہ طاقت پاتا ہے جو اسے تنگ نظری اور انتہا پسندی کے بیانیے سے دور رکھتی ہے۔

پاکستان میں ہندو، مسیحی، سکھ، پارسی اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو آئین کے تحت مکمل حقوق حاصل ہیں۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں ان کے لیے مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں۔ اسی طرح تعلیمی اداروں، سول سروس اور دیگر ریاستی اداروں میں بھی ان کی نمائندگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
کرسمس، دیوالی، بیساکھی اور ہولی جیسے تہوار سرکاری سطح پر منائے جاتے ہیں جو بین المذاہب ہم آہنگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کا سماجی ڈھانچہ تنگ نظری نہیں بلکہ اشتراکیت اور انسانی احترام کے اصولوں پر استوار ہے۔

 

پاکستان میں قومی تعطیلات اور عوامی تقریبات کو ہمیشہ قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کے پیغام سے جوڑا جاتا ہے۔ 14 اگست، 23 مارچ اور 6 ستمبر جیسے دن صرف قومی دفاع یا آزادی کی یاد نہیں بلکہ اتحاد، ایمان اور نظم کے استعارے ہیں۔
حکومت اور سول سوسائٹی کی سطح پر مختلف مکالمے، بین المذاہب کانفرنسیں اور یوتھ انیشیٹوز اسی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں کہ اختلاف کے باوجود اتفاق ممکن ہے۔

پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل سیاسی عمل میں عوام کی شراکت داری کو مضبوط بناتا ہے۔ پارلیمان، عدلیہ اور میڈیا کے ادارے ایک متوازن ریاستی نظام کے ضامن ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں نظریاتی تنوع پاکستان کے سیاسی اعتدال کی علامت ہے جہاں مختلف نقطہ نظر رکھنے والے گروہ ایک ہی قومی بیانیے یعنی "ترقی، امن اور استحکام” کے گرد متحد رہتے ہیں۔
پاکستانی حکومت اور نجی ادارے سماجی شمولیت کو فروغ دینے کے لیے متحرک ہیں۔ احساس پروگرام، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور کامیاب جوان جیسے اقدامات محروم طبقات کو معاشی خودمختاری کی طرف لے جا رہے ہیں۔
خواتین کے لیے تعلیم، صحت اور روزگار کے منصوبے اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان اپنی سماجی پالیسیوں میں مساوات اور شمولیت کو مرکزی حیثیت دیتا ہے۔
نوجوانوں کو فنی تربیت، ڈیجیٹل پلیٹ فارم تک رسائی اور قیادت کے مواقع دے کر معاشرتی استحکام کو تقویت دی جا رہی ہے۔

پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں انتہا پسندی کے خلاف فکری، تعلیمی اور عسکری محاذ پر بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

نیشنل ایکشن پلان، مدارس اصلاحات اور مذہبی مکالمے کے فروغ جیسے اقدامات نے ایک ایسا قومی اتفاق رائے پیدا کیا ہے جو انتہا پسند بیانیے کو چیلنج کرتا ہے۔
اس اعتدال پسند پالیسی نے داخلی امن کو بہتر کیا اور خطے میں بھی پاکستان کے کردار کو مضبوط کیا۔

تعلیمی نصاب میں شہری ذمہ داریوں، اخلاقی اصولوں اور بقائے باہمی پر زور دیا جاتا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں تنقیدی سوچ، مذہبی رواداری اور قومی ہم آہنگی کے مضامین کو شامل کیا گیا ہے تاکہ نئی نسل نظریاتی تنگی کے بجائے وسعتِ فکر کے ساتھ آگے بڑھے۔ یہی تعلیم وہ بنیاد فراہم کر رہی ہے جس پر ایک معتدل، باشعور اور ذمہ دار معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔

وطنِ عزیز کا میڈیا، فلم، تھیٹر اور موسیقی قوم کے مثبت تشخص کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ٹی وی ڈراموں سے لے کر فلموں اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز تک امن، محبت اور ترقی کے موضوعات نمایاں ہیں۔
پاکستانی مصوروں اور شاعروں نے ہمیشہ یہ پیغام دیا کہ تنوع ہی خوبصورتی ہے اور اختلافِ رائے دشمنی نہیں بلکہ تکمیل کا ذریعہ ہے۔ یہی آرٹس اور کلچر پاکستان کے اعتدال پسند چہرے کو عالمی سطح پر اجاگر کر رہے ہیں۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ مفاہمت، تعاون اور مکالمے پر مبنی رہی ہے۔ چاہے اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے اجلاس ہوں یا اقوام متحدہ کے فورمز، پاکستان نے ہمیشہ اقلیتوں اور مذاہب کے درمیان مکالمے کو فروغ دینے کی وکالت کی ہے۔
چین، ایران، ترکیہ، سعودی عرب، افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی یہی پالیسی جھلکتی ہے۔ "امن کے لیے شراکت داری” یہی رویہ پاکستان کو خطے میں ایک متوازن اور معتبر ثالث کے طور پر نمایاں کرتا ہے۔

پاکستان کا اعتدال پسند، متنوع اور شمولیتی تشخص کوئی وقتی نعرہ نہیں بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ یہ وہ ریاست ہے جس نے مذہب کو تفرقے نہیں بلکہ اتحاد کا وسیلہ بنایا، جس نے ثقافت کو تفریق نہیں بلکہ شناخت کا استعارہ سمجھا، اور جس نے سیاست کو اقتدار نہیں بلکہ خدمت کے جذبے سے جوڑا۔
ایک ایسے دور میں جب دنیا شدت پسندی اور نظریاتی انتہاؤں کا شکار ہے، پاکستان اپنے آئینی اصولوں، سماجی ہم آہنگی، تعلیمی اصلاحات اور سفارتی توازن کے ذریعے یہ ثابت کر رہا ہے کہ امن، ترقی اور انسانی وقار صرف اعتدال سے ہی ممکن ہے۔
یہ وہی پاکستان ہے جو نہ صرف اپنے شہریوں کے لیے امید کی علامت ہے بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک روشن مثال ہے۔
ایک اعتدال پسند، پُرامن اور باوقار معاشرہ ہی فلاحی ریاست تشکیل دے سکتا ہے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر حمزہ خان

    ڈاکٹر حمزہ خان نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں، اور یورپ سے متعلق عصری مسائل پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور لندن، برطانیہ میں مقیم ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔