غزہ کیلیے امداد روکنے کی مذمت
غزہ کی گلیوں میں بھوک کے سائے ہیں، اسپتالوں میں دوائیاں ختم ہو رہی ہیں اور بچے پیاس سے نڈھال ہیں۔ ایسے وقت میں دنیا بھر کے انسان دوست کارکن ایک کشتی میں بیٹھ کر سمندر کا سفر طے کرتے ہیں، تاکہ ان بے قصور لوگوں تک دوائی، کھانا اور امید پہنچا سکیں۔ یہ کشتی ’’صمود فلوٹیلا‘‘ کہلائی۔ لیکن افسوس کہ یہ سفر اپنی منزل تک نہ پہنچ سکا۔
اسرائیلی کارروائی نے نہ صرف امداد روکی بلکہ اُن کارکنوں کو بھی گرفتار کر لیا جو انسانیت کا پیغام لے کر نکلے تھے۔ یہی وہ لمحہ ہے جس پر پاکستان کی حکومت اور عوام دونوں نے یک زبان ہو کر کہا: “یہ ظلم بند ہونا چاہیے۔”
پاکستان کا مؤقف
اسلام آباد سے جاری بیان میں صاف الفاظ میں کہا گیا: فلسطینی عوام پہلے ہی بدترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں، اور اب امداد روکنا انسانیت پر کاری ضرب ہے۔ پاکستان نے مطالبہ کیا کہ گرفتار کارکنوں کو فوراً رہا کیا جائے اور امدادی سامان غزہ تک پہنچنے دیا جائے۔
عوام کی آواز
پاکستانی عوام نے بھی اپنے جذبات سوشل میڈیا پر کھل کر بیان کیے۔
ایک شہری نے لکھا: “یہ کارکن انسانیت کے سپاہی ہیں، دہشت گرد نہیں۔ انہیں جیل میں نہیں، عزت کے ساتھ سلام پیش کیا جانا چاہیے۔”
ایک طالب علم نے کہا: “اگر کھانے کا ایک ڈبہ اور دوائی کی ایک بوتل بھی غزہ نہیں پہنچ سکتی، تو پھر عالمی ضمیر مر چکا ہے۔”
ایک اور صارف نے جذباتی انداز میں لکھا: “ہم چاہتے ہیں کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورا عالمِ اسلام کھڑا ہو، ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔”
دنیا کی خاموشی
یہ سوال سب کے ذہن میں ہے کہ بڑی طاقتیں کب جاگیں گی؟ کیوں وہ دیکھتے ہیں کہ بچے بھوک سے بلک رہے ہیں مگر زبان پر خاموشی ہے؟ پاکستان نے دنیا کو یاد دلایا کہ یہ مسئلہ صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا ہے۔
اصل کہانی
’’صمود فلوٹیلا‘‘ کے کارکن کوئی سیاستدان یا جنگجو نہیں تھے، یہ عام انسان تھے: ڈاکٹر، اساتذہ، طالب علم اور رضا کار۔ وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر سمندر میں اترے تاکہ کسی بیمار بچے تک دوائی پہنچ سکے، کسی بھوکے خاندان تک کھانے کا پیکٹ جا سکے۔ ان کی گرفتاری صرف افراد کی گرفتاری نہیں بلکہ انسانیت کو قید کرنے کے مترادف ہے۔
نتیجہ
پاکستان کی آواز دراصل ان کارکنوں کی جدوجہد کا تسلسل ہے۔ یہ پیغام ہے کہ ظلم کے خلاف بولنا ہماری ذمہ داری ہے، چاہے ہماری طاقت محدود ہی کیوں نہ ہو۔ ’’صمود فلوٹیلا‘‘ کی کہانی ایک سوال چھوڑتی ہے:
کیا ہم سیاست کی دیواریں اونچی کرتے رہیں گے، یا انسانیت کی کشتی کو منزل تک پہنچنے دیں گے؟