پاکستان کے خلاف مختلف ادوار میں ایسے بیانیے تخلیق کیے گئے جن کا مقصد ملک کو عالمی سطح پر بدنام کرنا اور زمینی حقائق کو مسخ کرنا تھا۔
9/11 کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے تناظر میں بھی ایک ایسا ہی تاثر عالمی میڈیا میں گونجتا رہا کہ پاکستان نے طالبان کے سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کے ساتھ ’’دھوکہ‘‘ کیا۔ تاہم حال ہی میں پاکستان کے سابق انٹیلی جنس چیف جنرل احسان الحق کے انکشافات نے اس پورے بیانیے کو حقیقت کی کسوٹی پر جانچنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
نائن الیون کے واقعات کے بعد جب افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا تو دنیا نے یکدم طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے سفارتی رابطے منقطع کر دیے۔ پاکستان جو اس وقت تک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا واحد ملک تھا نے بھی بین الاقوامی تقاضوں کے مطابق اپنی تسلیم شدہ حیثیت واپس لے لی۔ تاہم اسی دوران طالبان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف اسلام آباد میں اپنی سفارتی رہائش گاہ میں بدستور مقیم رہے۔
یہ وہ دور تھا جب پاکستان عالمی دباؤ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور علاقائی توازن کے نازک مرحلے سے گزر رہا تھا۔ اسی ماحول میں ضعیف کی سرگرمیوں نے پاکستان کے لیے کئی سفارتی مشکلات پیدا کیں۔
جنرل احسان الحق کے مطابق طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد متعدد غیر ملکی صحافی اسلام آباد میں ملا ضعیف کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہو گئے۔ ضعیف نے اس صورت حال کو اپنے سیاسی مفاد میں استعمال کیا اور میڈیا کو بیانات دینا شروع کر دیے۔ ان بیانات میں وہ مسلسل پاکستان کے کردار پر تنقید کرتے اور ملک کو طالبان حکومت سے ’’دھوکہ‘‘ دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔
یہ منظرنامہ پاکستان کے لیے نہایت حساس تھا۔ کیونکہ ایک جانب ملک بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم اتحادی تھا۔ جبکہ دوسری جانب طالبان کے ایک سابق سفارتکار کا دارالحکومت میں کھلے عام میڈیا سے رابطہ پاکستان کے سفارتی مؤقف کو نقصان پہنچا رہا تھا۔
پاکستان نے ابتدا میں انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا۔ وزارتِ خارجہ کی جانب سے متعدد مرتبہ ملا ضعیف سے باضابطہ طور پر کہا گیا کہ چونکہ طالبان حکومت اب ختم ہو چکی ہے۔ اس لیے ان کی سفارتی حیثیت بھی قانونی طور پر برقرار نہیں رہی۔
انہیں بارہا یہ پیشکش کی گئی کہ وہ پاکستان میں ایک عام افغان شہری کی طرح اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔ مگر وہ اپنی رہائش گاہ خالی کرنے سے انکاری رہے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں تقریباً 50 لاکھ افغان مہاجرین پہلے ہی موجود تھے۔ ان میں سے کسی کو بھی امریکہ کے حوالے نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود ملا ضعیف نے ہر پیشکش مسترد کی اور اپنی رہائش گاہ کو سیاسی علامت کے طور پر استعمال کرتے رہے۔
کئی ماہ تک پاکستان نے مختلف سطحوں پر تحمل، مکالمہ اور ثالثی کی کوشش کی۔ لیکن جب تمام راستے بند ہو گئے تو ریاست نے قانونی تقاضوں کے تحت فیصلہ کیا کہ ملا ضعیف کو طورخم بارڈر کے راستے افغانستان واپس بھیجا جائے۔
اس فیصلے کا مقصد کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہیں بلکہ ملکی قوانین اور بین الاقوامی سفارتی ضابطوں کی پاسداری تھی۔ چنانچہ انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے طورخم منتقل کیا گیا۔
پرواز کے دوران بھی پاکستانی حکام نے انسانی ہمدردی کے تحت ایک آخری پیشکش کی کہ اگر وہ چاہیں تو پاکستان کے اندر منتقل ہو سکتے ہیں، پرواز واپس موڑ دی جائے گی۔ مگر ملا ضعیف نے ایک بار پھر اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔
طورخم پہنچنے کے بعد جیسے ہی ملا ضعیف نے افغانستان کی سرزمین پر قدم رکھا۔ وہاں موجود افغان سکیورٹی فورسز نے انہیں گرفتار کر لیا اور بعد ازاں امریکہ کے حوالے کر دیا۔ پاکستان کا اس گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بلکہ یہ افغانستان کے داخلی عمل کا حصہ تھا۔
تاہم بعد میں عالمی میڈیا میں یہ تاثر دیا گیا کہ پاکستان نے انہیں ’’امریکیوں کے حوالے کیا‘‘۔ یہ وہی بیانیہ تھا جو حقیقت کے برعکس اور جانبدارانہ انداز میں پھیلایا گیا۔
ملا ضعیف کی گرفتاری کے بعد بین الاقوامی میڈیا اور بعض مغربی تھنک ٹینکس نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ اس نے اپنے سابق اتحادیوں کو دھوکہ دیا۔
اس بیانیے کو مزید تقویت اس وقت ملی جب رہائی کے بعد ملا ضعیف نے بھارت میں اپنی ایک کتاب شائع کی۔جس میں انہوں نے پاکستان کے بارے میں گمراہ کن اور توہین آمیز دعوے کیے۔ یہ امر حیران کن نہیں تھا۔کیونکہ بھارت اس وقت خطے میں پاکستان کے خلاف کسی بھی منفی پروپیگنڈا کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا تھا۔
جنرل احسان الحق نے حال ہی میں ایک سیمینار کے دوران اس تمام معاملے کی تفصیلات بیان کیں۔ ان کے مطابق
پاکستان نے کبھی بھی ملا ضعیف کے ساتھ دھوکہ نہیں کیا۔ اس نے تمام قانونی اور انسانی تقاضوں کے مطابق پیشکشیں کیں۔
لیکن انہوں نے خود اپنی ضد کی بنیاد پر وہ راستہ چنا جو ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔
ان کے انکشافات نے کئی سالوں سے جاری مغربی بیانیے کو جھوٹا قرار دے دیا۔
یہ واقعہ پاکستان کی اس دیرینہ پالیسی کی جھلک بھی پیش کرتا ہے جس میں سفارتی تعلقات میں اصول، قانون اور ریاستی مفادات کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ پاکستان نے کبھی بھی انسانی ہمدردی کے اصولوں سے انحراف نہیں کیا۔ لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
اسی طرح طالبان کے سابق سفیر کو ملک بدر کرنا کسی ذاتی دشمنی یا انتقام کا نتیجہ نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کے تقاضوں کے مطابق ایک فطری قدم تھا۔
ملا ضعیف نے بعد ازاں اپنی رہائی کے بعد بھارت میں جو کتاب شائع کی۔ اس میں انہوں نے پاکستان پر ’’دھوکہ‘‘ دینے کا الزام لگایا۔ لیکن کتاب میں نہ کوئی شواہد تھے اور نہ کسی آزاد ماخذ کا حوالہ۔ یہ تحریر زیادہ تر جذباتی ردعمل پر مبنی تھی۔ جسے مخصوص حلقوں نے پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔
یہ واقعہ ایک سبق بھی فراہم کرتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں احساسات نہیں بلکہ ادارہ جاتی نظم و ضبط فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان نے ایک ایسے وقت میں اصولی مؤقف اپنایا جب دنیا کے بڑے ممالک بھی غیر یقینی میں مبتلا تھے۔ اگر پاکستان نے اپنے قوانین پر عمل نہ کیا ہوتا تو وہ خود بین الاقوامی دباؤ کا شکار بن جاتا۔جنرل احسان الحق کے بیان نے نہ صرف ایک پرانے بیانیے کو دفن کر دیا بلکہ یہ بھی واضح کر دیا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ شفاف، قانونی اور اصولی بنیادوں پر استوار رہی ہے۔
ملا ضعیف کے ساتھ پیش آنے والا معاملہ دراصل ایک فرد کی ضد اور سیاسی سادہ لوحی کا نتیجہ تھا۔ نہ کہ کسی ریاستی دھوکے کا۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025بیورو چیف، پی این این، پشاور
جنوری 2023 تا جنوری 2024بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
16 فروری 2005 تا 21 جون 2008رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
فروری 2000 تا 30 نومبر 2003
View all posts
