کیمیا کے شعبے میں سنہ 2025 کا نوبیل انعام فلسطینی نژاد سائنس دان عمر یاغی نے جیت لیا۔ وہ اس اعزاز کو حاصل کرنے والے پہلے فلسطینی اور عرب نژاد سائنس دان ہیں۔ عمر یاغی کی تحقیق نے سائنسی دنیا میں ایک نئی سمت پیدا کی اور انہیں عالمی سطح پر علم اور جدت کی علامت بنا دیا۔ انہوں نے اپنی غیر معمولی دریافتوں سے یہ ثابت کیا کہ محدود وسائل اور مشکلات کے باوجود علم اور تحقیق کے ذریعے دنیا میں نمایاں مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان کی تحقیق نے ماحولیات توانائی اور کیمیائی سائنس کے میدانوں میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں۔ یہ کامیابی اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ عمر یاغی عرب دنیا سے تعلق رکھنے والے ان سائنس دانوں میں شامل ہیں جنہوں نے مغربی ممالک میں رہتے ہوئے اپنی محنت سے اپنے خطے کا نام روشن کیا۔
عمر یاغی کا تعلیمی اور پیشہ ورانہ سفر
عمر یاغی 1965 میں اردن کے دارالحکومت عمان میں ایک فلسطینی پناہ گزین خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن محدود سہولیات کے ماحول میں گزرا لیکن علم حاصل کرنے کا شوق انہیں ہمیشہ آگے بڑھاتا رہا۔ تعلیم کے شوق نے انہیں امریکہ پہنچایا جہاں انہوں نے اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ انہوں نے کیمیا میں پی ایچ ڈی کی اور بعد میں امریکہ کی مشہور جامعات جیسے یونیورسٹی آف الینوائے ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی یونیورسٹی آف مشی گن یو سی ایل اے اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ ان کے شاگرد انہیں ایسا استاد مانتے ہیں جو مشکل سائنسی تصورات کو سادہ اور عملی انداز میں سمجھاتے ہیں۔ عمر یاغی ہمیشہ نوجوان سائنس دانوں کو محنت ایمانداری اور تسلسل کا درس دیتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سائنسی کامیابی تبھی ممکن ہے جب علم کو انسانیت کی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے۔
پی ایس ایل کا اگلا سیزن 2 اضافی ٹیموں کیساتھ اپریل مئی میں ہونیکا امکان
انعام یافتہ تحقیق اور عالمی اثر
عمر یاغی کی شہرت ان کی تحقیق ریٹیکیولر کیمسٹری سے جڑی ہے۔ اس شعبے میں انہوں نے ایسی مضبوط کیمیائی ساختیں بنائیں جنہیں میٹل آرگینک فریم ورکس یا ایم او ایفز کہا جاتا ہے۔ یہ ساختیں گیسوں کو محفوظ کرنے صاف کرنے اور دوبارہ استعمال کے قابل بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ ایم او ایفز کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جذب فضائی آلودگی کے خاتمے توانائی کے مؤثر استعمال اور خشک علاقوں سے ہوا میں موجود نمی سے پانی حاصل کرنے جیسے مسائل کے حل ممکن ہوئے ہیں۔ ان کی دریافتیں آج دنیا بھر میں ماحول دوست منصوبوں اور صنعتی تحقیق میں استعمال ہو رہی ہیں۔ ان کی تحقیق نے کیمیا کے میدان میں ایک نئی سوچ پیدا کی اور انہیں علم کے عملی استعمال کی علامت بنا دیا۔ ان کا نوبیل انعام اس بات کا ثبوت ہے کہ علم کی طاقت سرحدوں سے بالاتر ہوتی ہے۔