Nigah

گلگت بلتستان میں احتجاجی سیاست اور اس کے معاشی اثرات

گلگت بلتستان پاکستان کا وہ خطہ ہے جو جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک طرف یہ چین کے ساتھ ملحقہ سرحد رکھتا ہے۔ دوسری جانب سی پیک جیسے تاریخی منصوبے کے گزرنے کی وجہ سے اس کی سٹریٹجک اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس خطے کی معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی اکثر احتجاجی سیاست، بندشوں اور غیر منظم مظاہروں کے باعث متاثر ہوتی ہے۔
یہ احتجاج بظاہر عوامی حقوق کے لیے ہوتے ہیں مگر ان کے نتیجے میں روزگار، تجارت اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر سنجیدہ مکالمہ اور پالیسی تشکیل کی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان کی معیشت بڑی حد تک سرحدی تجارت پر انحصار کرتی ہے۔ چین کے ساتھ سرحدی دروازہ خنجراب پاس خطے کے ہزاروں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہے۔ ٹرانسپورٹ، تجارت، ٹورازم اور سروسز سیکٹر اس سرحدی معاشی نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔
تاہم جب کبھی احتجاجی سیاست یا دھرنوں کی وجہ سے یہ راستے بند ہوتے ہیں تو پورا تجارتی سلسلہ ٹھپ ہو جاتا ہے۔ درآمد و برآمد میں رکاوٹ سے نہ صرف تاجروں بلکہ عام مزدوروں، ہوٹل مالکان اور ٹرانسپورٹرز کو بھی نقصان ہوتا ہے۔

احتجاج                   ایک جمہوری حق ضرور ہے، مگر جب یہ غیر ذمہ دارانہ انداز میں استعمال کیا جائے تو یہ عوامی مفاد کے بجائےنقصان کا باعث بنتا ہے۔

گلگت بلتستان میں گزشتہ برسوں کے دوران متعدد مرتبہ احتجاجی تحریکوں نے تجارتی گزرگاہوں کو بند رکھا۔ جس کے نتیجے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ ایندھن کی قلت پیدا ہوئی اور سیاحتی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئیں۔
یہ صورتحال براہ راست مقامی معیشت کو کمزور کرتی ہے جو پہلے ہی محدود وسائل پر چل رہی ہے۔ ایک ہفتے کی بندش ہزاروں خاندانوں کے لیے روزگار کے دروازے بند کر دیتی ہے۔

اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جو سیاسی گروہ عوامی مفاد کے نام پر احتجاج کرتے ہیں وہی عوام کو سب سے زیادہ مشکلات میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ بازار بند، ٹرانسپورٹ معطل اور اشیائے خورد و نوش کی قلت۔ یہ سب عام شہری کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔
احتجاج کے دوران دکانداروں پر دباؤ، سرکاری دفاتر کی بندش اور تعلیمی اداروں کی تعطیلات دراصل اس بات کا ثبوت ہیں کہ احتجاجی سیاست عوامی نہیں بلکہ خود غرضانہ مفاد کی نمائندہ ہے۔
گذشتہ کچھ عرصے سے بعض سیاسی گروہ یا سماجی تنظیمیں ریاستی اداروں کے خلاف بیانیہ تشکیل دینے میں مصروف ہیں۔ وہ عوامی حقوق کے پردے میں ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو دشمن قوتوں کے بیانیے سے مشابہت رکھتی ہے۔
یہ رویہ نہ صرف قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ دشمنوں کے لیے پراکسی بیانیہ تیار کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان جیسے حساس خطے میں ایسی سیاست کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہونی چاہیے۔
خنجراب پاس کی بندش یا تجارتی رکاوٹوں کے نتیجے میں جو اثرات پیدا ہوئے ہیں وہ صرف تاجروں تک محدود نہیں رہتے۔ پورے خطے کی اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ ایندھن مہنگا ہو جاتا ہے، سیاحت کم ہو جاتی ہے اور مقامی پیداوار کی رسد متاثر ہوتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق جب سرحد ایک ہفتے کے لیے بند رہتی ہے تو مقامی معیشت کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ ایسے میں احتجاج کے فائدے کے بجائے نقصان کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے عوام کسی بھی صورت میں انتشار یا بندش نہیں چاہتے۔ ان کی اولین خواہش روزگار، تعلیم، صحت اور امن کی فراہمی ہے۔ وہ ترقی چاہتے ہیں، سیاسی تماشے نہیں۔
اس حقیقت کو سیاسی جماعتوں اور مقامی گروہوں کو سمجھنا ہوگا کہ عوام اب نعروں سے نہیں نتائج سے مطمئن ہوتے ہیں اور روزگار کا استحکام اور تجارتی راہوں کی بحالی ہی وہ حل ہے جو عوامی خوشحالی کو یقینی بناتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ حکومت، سیاسی قیادت اور سول سوسائٹی مل کر ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس میں عوامی مطالبات کو سننے کا شفاف نظام ہو۔ مگر احتجاجی دباؤ یا دھرنوں کے بجائے ادارہ جاتی مکالمے کے ذریعے مسائل حل ہوں۔
وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ سرحدی تجارت کے تسلسل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر متبادل راستے اور مالی تحفظ کے میکنزم بنائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور دانشور طبقے کو بھی ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ عوام میں شعور اجاگر ہو کہ احتجاج کا مطلب انتشار نہیں ہونا چاہیے۔
جو سیاست عوام کے روزگار کو متاثر کرے، معیشت کو کمزور کرے اور ریاستی اداروں کو بدنام کرے وہ دراصل قومی وحدت کے خلاف عمل ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ احتجاج کی کامیابی اس وقت ممکن ہے جب اس کا مقصد مثبت تبدیلی ہو نہ کہ معاشی تباہی۔
ریاست دشمن بیانیے وقتی شہرت تو لا سکتے ہیں مگر طویل مدتی نقصان کے ذمہ دار بھی یہی عناصر ہوتے ہیں۔
گلگت بلتستان جیسے حساس اور اسٹریٹیجک خطے کے لیے معاشی استحکام سب سے اہم ہے۔ احتجاجی سیاست اور سڑکوں کی بندش سے نہ صرف عوام متاثر ہوتے ہیں بلکہ پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ اور سی پیک جیسے بڑے منصوبے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
پائیدار ترقی کا راستہ صرف امن، شفافیت اور مثبت مکالمے سے ممکن ہے، نہ کہ انتشار اور دھرنوں سے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر محمد عبداللہ

    محمد عبداللہ آسٹن یونیورسٹی، برطانیہ میں بین الاقوامی تعلقات میں امیدوار۔ ان کی تحقیقی دلچسپیاں عالمی سلامتی، خارجہ پالیسی کے تجزیہ اور بین الاقوامی سفارت کاری کی ابھرتی ہوئی حرکیات پر مرکوز ہیں۔ وہ علمی گفتگو میں فعال طور پر مصروف ہیں اور جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست اور کثیر جہتی تعلقات پر خاص زور دینے کے ساتھ علمی پلیٹ فارمز میں حصہ ڈالتے ہیں۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔