"عمران خان کا نیا علاج تیار” کے عنوان سے اپنے نئے وی لاگ میں اسلام آباد کے باخبر ترین جرنلسٹس میں شامل سینئر صحافی و یوٹیوبر ظفر نقوی نے کہا ہے کہ 27 ویں ترمیم کے ذریعے پاکستان میں یوتھیا وائرس کا پکا علاج کیا جائیگا اور اسے آپ یوتھیا وائرس کی ویکسین بھی کہہ سکتے ہیں، اس ترمیم کی حکومت اور ریاست کو کوئی جلدی نہیں، 26ویں ترمیم میں ایک ٹائم لائن تھی لیکن اس بار ٹائم لائن نہیں ہو گی تاہم اس ترمیم کا آنا نوشتہ دیوار ہے۔
ظفر نقوی کا کہنا ہے کہ پچھلے ہفتے میں دو اہم ترین ملاقاتیں ہوئی ہیں پہلی اہم ملاقات چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی حلف برداری کی تقریب ختم ہونے کے بعد ایوان صدر میں ہوئی جس میں صدر آصف زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر شریک ہوئے، اس ملاقات سے اگلے روز یا اس سے اگلے روز ماڈل ٹاؤن لاہور میں بھی ایک اہم ملاقات ہوئی، یہ ملاقات وزیراعظم شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری میں ہوئی ہے، گورنر پنجاب اور دونوں جماعتوں کے کچھ سرکردہ رہنما خاص طور پر رانا ثناء اللہ اور اعظم نذیر تارڑ اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق بھی اس ملاقات میں شریک تھے، یہ کہا جا رہا ہے کہ ان دونوں ملاقاتوں کی ایک ہی کہانی ہے، اور وہ ہے 27ویں آئینی ترمیم۔
ظفر نقوی کا کہنا ہے کہ وہ پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ آئینی ترمیم چاہے 26ویں ہو یا 27ویں یہ حکومت سے زیادہ ریاست اور ریاستی اداروں کی ضرورت ہے اور ہونی بھی چاہیئے کہ جو ملک وقوم کی سلامتی کے ضامن ادارے ہیں انہیں ملک کو سیاسی و معاشی استحکام لانا ہے، اس وقت ملک میں جو اودھم مچا ہوا ہے، اس اودھم میں آپ کوئی سیاسی و معاشی استحکام نہیں لا سکتے۔
ظفر نقوی نے اپنے وی لاگ میں زور دے کر کہا ہے کہ وہ پہلے بھی کہتے رہے ہیں اور اب پھر کہہ رہے ہیں کہ جب تک سکون نہیں ہو گا حالات نہیں بدلیں گے اور یہ سکون اس وقت تک محال ہے کہ جب تک آپ یوتھیا وائرس کی ویکسین نہیں لاتے، اس وائرس کا علاج کیئے بغیر آپ الٹے بھی کھڑے ہو جائیں آپ اس ملک میں استحکام نہیں لا سکتے، یہ بالکل پکی بات ہے، یہ معاشی ترقی اور یہ سب ایک خواب ہی رہے گا، ملک میں نہ سیاسی استحکام آئے گا، نہ معاشی استحکام اور نہ ہی کوئی سرمایہ کاری آئے گی جب تک آپ اس کلٹ کا علاج نہیں کرتے۔
میں آپ کو پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ آئینی ترمیم چاہے 26ویں ہو یا 27ویں وہ حکومت سے زیادہ ریاست کی ضرورت ہے اور جو چیز ریاست کی ضرورت ہو وہ رکتی نہیں، ہو کر رہتی ہے۔
ظفر نقوی کا کہنا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم سے دو باتیں ثابت ہو گئی ہیں کہ جب ریاست فیصلہ کر لے ترمیم کیلئے ضروری دو تہائی اکثریت پوری ہو جاتی ہے، دوسرے یہ کہ حکومت کے پاس پی ٹی آئی کے اتنے ارکان اسمبلی موجود تھے کہ وہ مولانا کے بغیر بھی ترمیم منظور کروا سکتی تھی، جب اتنے بھرپور نمبرز کی اکثریت موجود ہے تو پھر 27ویں یا 28ویں ترمیم منظور کروانا کچھ مشکل نہیں۔
ظفر نقوی نے دعویٰ کیا ہے کہ زین قریشی کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے 15 ایم این ایز کا فارورڈ بلاک تیار ہے لیکن چونکہ ان کے بغیر بھی کام چل گیا اس لیئے انہیں ریزرو میں رکھ لیا گیا ہے، اسی طرح پی ٹی آئی کے 2 سینیٹرز کو بھی ریزور رکھ لیا گیا ہے، ظفر نقوی نے دعویٰ کیا کہ ریاست کے پاس مزید آپشنز بھی ہیں جو وقت آنے پر سامنے آ جائیں گے۔
ظفر نقوی کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے اختر مینگل کے جس سینیٹر نے استعفیٰ دیا ہے وہ بھی ان ڈائریکٹ حکومت کو سپورٹ دی گئی ہے کہ اس کی جگہ جو نیا سینیٹر منتخب ہو گا وہ حکمران اتحاد یعنی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا ہی ہو گا۔
ظفر نقوی نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے حوالے سے بھی کچھ "تعمیر و مرمت” آنے والے دنوں میں ہوتی نظر آئے گی اور جو لیکوناز رہ گئے ہیں انہیں درست کیا جائے گا، ظفر نقوی کا دعویٰ ہے کہ کلٹ کو ڈیل کرنے کیلئے ملٹری کورٹس ناگزیر ہیں، اس لیئے جلد ہی بلاول بھٹو کی ملاقاتیں مولانا اور دیگر سیاسی لوگوں سے شروع ہو جائیں گی اور پہلے کی طرح آنا جانا لگا رہے گا، مولانا کے گھر ایک بار پھر رونق لگے گی اگر وہ نہ مانے تو نمبرز بہرحال پورے ہیں ان کے بغیر بھی، یہ نوشتہ دیوار ہے۔
ظفر نقوی نے ایک اور سنسنی خیز دعویٰ یہ کیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم میں ملٹری کورٹس کے ساتھ ساتھ آئینی عدالت کا قیام بھی شامل ہو سکتا یے، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آئینی بنچز ہی رہیں لیکن ان میں کچھ تبدیلی کر دی جائے، ساتھ ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں بھی ایک بار پھر ضروری تبدیلیاں کی جائیں، سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بھی بڑھ سکتی ہے حالانکہ اس کیلئے تو عام قانون سازی ہی کافی ہے لیکن ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے روٹیشنل پلان کو بھی دوبارہ شامل کیا جا سکتا ہے اس نئی ترمیم میں، یعنی ججز کے بین الہائیکورٹ تبادلے بھی نئی ترمیم میں شامل ہو سکتے ہیں، یوں سمجھ لیں کہ 26ویں ترمیم مولانا کے مسودہ تھا اب 27ویں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا مسودہ ہوگا۔