23 اکتوبر 2025 کو برطانوی اخبار ٹیلی گراف میں ہاردیپ سنگھ کا مضمون شائع ہوا ۔
” The Grooming Gangs
The Rapists Are Mainly Pakistani Muslims, Not Asians ”
کے عنوان سے شائع ہوا۔ مضمون میں مصنف نے دعویٰ کیا کہ برطانیہ میں ہونے والے بیشتر گرومنگ گینگ یا بچوں کے اجتماعی جنسی استحصال کے جرائم میں ملوث افراد پاکستانی مسلمان مرد ہیں۔
یہ بیانیہ نہ صرف غیر مصدقہ اور گمراہ کن ہے بلکہ اس میں سرکاری رپورٹس اور تحقیقی نتائج کی صریح غلط تشریح کی گئی ہے۔ یہ دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا جب برطانیہ میں بچوں کے تحفظ، ادارہ جاتی اصلاحات اور اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان پر گہری بحث جاری ہے۔
ہاردیپ سنگھ کے مضمون کا بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ گرومنگ گینگز کے زیادہ تر مجرم پاکستانی مسلمان ہیں، اور یہ کہ ’’سیاسی درستگی (Political Correctness)‘‘ کے نام پر یہ ’’سچ‘‘ چھپایا جا رہا ہے۔
تاہم یہ دعویٰ سرکاری شواہد اور معتبر اعداد و شمار سے براہ راست متصادم ہے۔
جون 2025 میں بارونس لوئیس کیسی کی زیر نگرانی شائع ہونے والا National Audit on Group-Based Child Sexual Exploitation (کیسی آڈٹ) اس موضوع پر برطانیہ کی سب سے جامع رپورٹوں میں سے ایک ہے۔
اس رپورٹ میں صاف طور پر کہا گیا ہے
دو تہائی مجرموں کے لیے نسلی ڈیٹا ریکارڈ ہی نہیں کیا گیا۔ لہٰذا قومی سطح پر کسی خاص نسل کے غلبے کا دعویٰ اعداد و شمار کے لحاظ سے ممکن نہیں۔
اسی طرح برطانیہ کے ہوم آفس کی 2020 کی تحقیقی رپورٹ بھی اس دعوے کی تردید کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جن مطالعات میں بعض ایشیائی پس منظر کے افراد کی محدود نمائندگی دیکھی گئی وہ چھوٹے، غیر نمائندہ ڈیٹا سیٹس پر مبنی تھے۔ جنہیں قومی رجحان کا پیمانہ نہیں بنایا جا سکتا۔
ہوم آفس کے 2020 کے ڈیٹا سیٹ میں تقریباً 4 ہزار مجرموں کے کیسز کا تجزیہ کیا گیا۔
اس کے مطابق 42 فیصد مجرم سفید فام یا سفید فام برطانوی تھے، 17 فیصد سیاہ فام یا سیاہ فام برطانوی،14 فیصد ایشیائی یا ایشیائی برطانوی جبکہ 22 فیصد کے لیے کوئی نسلی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔
یہ تناسب ظاہر کرتا ہے کہ نہ کوئی ایک نسل غالب ہے اور نہ ہی پاکستانی یا مسلمان شناخت کو نمایاں کرنا اعداد و شمار کی روشنی میں درست ہے۔
کیسی آڈٹ مزید وضاحت کرتا ہے کہ مقامی سطح پر کچھ مخصوص علاقوں میں بننے والے ’’کلسٹرز‘‘ کو قومی رجحان سمجھ لینا ’’اعداد و شمار کے لحاظ سے غیر ذمہ دارانہ‘‘ ہے۔ یہ اعداد و شمار مخصوص آبادیاتی، سماجی اور پولیسنگ عوامل کی عکاسی کرتے ہیں نہ کہ کسی نسلی رجحان کی۔
گذشتہ برسوں میں مغربی میڈیا نے ’’Asian Grooming Gangs‘‘ کی اصطلاح عام کی۔ جس کے تحت مختلف نسلی پس منظر جیسے بھارتی، بنگلہ دیشی اور پاکستانی سب کو ایک ہی زمرے میں رکھ دیا گیا۔
ہاردیپ سنگھ کا یہ کہنا کہ اصل مجرم ’’پاکستانی مسلمان‘‘ ہیں دراصل اس بیانیے کو مزید محدود اور تعصب آمیز سمت میں لے جاتا ہے۔
یہ اصطلاح اب ایک قومیت کو ہدف بنانے کا ذریعہ بن گئی ہے ۔جس سے معاشرتی ہم آہنگی، مذہبی رواداری اور برطانیہ میں بسنے والے مسلمانوں کے اعتماد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس قسم کی رپورٹنگ سے متاثرین کی توجہ اس بات سے ہٹ جاتی ہے کہ اصل مسئلہ ادارہ جاتی ناکامیوں اور حفاظتی اقدامات کی کمی کا ہے۔ نہ کہ کسی مخصوص قومیت یا مذہب کا۔
2017 میں کویلیم فاؤنڈیشن کی ایک متنازع رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ 84 فیصد مجرم ایشیائی تھے۔
تاہم ہوم آفس نے 2020 میں اس رپورٹ کو ’’غیر شفاف‘‘ اور ’’اعدادی بنیاد پر ناقابلِ اعتماد‘‘ قرار دیا۔
پھر بھی یہی غلط اعداد و شمار آج بھی سیاسی اور میڈیا بیانیوں میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔ جو حقیقت سے انحراف اور عوامی غلط فہمی کو بڑھا رہے ہیں۔
بی بی سی، رائٹرز اور گارڈین جیسے میڈیا ادارے متعدد بار خبردار کر چکے ہیں کہ گرومنگ گینگ جیسے حساس معاملات کو مذہبی یا نسلی تناظر میں پیش کرنا سماجی تقسیم کو گہرا کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق برطانیہ میں بچوں کے جنسی استحصال کا مسئلہ کسی مخصوص نسلی گروہ سے منسلک نہیں بلکہ ادارہ جاتی غفلت، کمزور رپورٹنگ سسٹم اور ناکافی تحقیق کا نتیجہ ہے۔
ویلنریبلٹی نالج اینڈ پریکٹس پروگرام (VKPP) کے مطابق 2022 میں بچوں کے جنسی استحصال کے تقریباً 1 لاکھ 7 ہزار واقعات رپورٹ ہوئے۔ جن میں سے صرف 5 فیصد گروپ پر مبنی تھے۔
یہ ظاہر کرتا ہے کہ ’’گرومنگ گینگ‘‘ کی اصطلاح سے منسوب مسئلہ دراصل کل استحصال کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔
جب اس محدود حصے کو بھی ایک قومیت کے ساتھ جوڑا جائے تو نتیجہ اسلامو فوبیا، تعصب اور معاشرتی پولرائزیشن کی صورت میں نکلتا ہے۔
برطانوی پاکستانی جو ملک کی کل آبادی کا صرف 2 فیصد ہیں، پہلے ہی میڈیا کے تعصبانہ رویے اور سماجی شکوک و شبہات کا سامنا کر رہے ہیں۔
جب گرومنگ گینگ جیسے حساس موضوعات کو صرف ’’پاکستانی مسلمان‘‘ شناخت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے تو یہ اجتماعی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔
ڈاکٹر ایلا کاک بین جو بچوں کے استحصال پر تحقیق کرنے والی معروف ماہر ہیں، کہتی ہیں
جب ہم جرم کو قومیت یا مذہب کے ساتھ جوڑتے ہیں تو ہم ان کمیونٹیز کو الگ تھلگ کر دیتے ہیں جن کا تعاون استحصال کے خلاف ضروری ہے۔
اس طرح کے بیانیے سے نہ صرف تحقیق متاثر ہوتی ہے بلکہ متاثرہ بچوں کے لیے مدد اور انصاف کے راستے بھی محدود ہو جاتے ہیں۔
پاکستان نے بچوں کے ہر قسم کے جنسی استحصال کی ہمیشہ مذمت کی ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق ایسے جرائم ناقابل معافی ہیں اور مجرموں کے لیے سخت سزا کا تقاضا کرتے ہیں۔
تاہم برطانیہ میں زیر بحث یہ کیسز زیادہ تر برطانوی شہریوں سے متعلق ہیں جو برطانوی قوانین کے تحت جواب دہ ہیں۔
پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ جرائم کو قومیت یا مذہب سے جوڑنا خطرناک تعصب کو فروغ دیتا ہے جو انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
کیسی آڈٹ کے بعد برطانیہ کی حکومت نے ایک قومی انکوائری کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد اعداد و شمار کی درستگی، نسلی معلومات میں شفافیت اور ادارہ جاتی اصلاحات کو یقینی بنانا ہے۔
رپورٹ میں لازمی طور پر درج ذیل سفارشات شامل ہیں:
مشتبہ افراد کے لیے لازمی نسلی ریکارڈنگ۔۔
ادارہ جاتی جواب دہی کے مضبوط نظام۔۔
بچوں کے تحفظ کے لیے واضح قانونی فریم ورک۔۔
یہ اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اصل مسئلہ ڈیٹا، پالیسی اور نفاذ کا ہے، نہ کہ کسی مذہبی یا قومی شناخت کا۔
سنسنی خیز صحافت جیسی کہ ہاردیپ سنگھ کا مضمون، معاشرتی امن اور صحافتی اصولوں دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
صحافت کا بنیادی اصول حقائق، توازن اور حساسیت ہے، نہ کہ پروپیگنڈا یا تعصب۔
رائٹرز کی جون 2025 کی رپورٹ نے بھی تسلیم کیا کہ میڈیا کے کچھ حصوں نے اعداد و شمار کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جس سے اسلامو فوبیا کو فروغ ملا۔
اس طرح کی رپورٹنگ متاثرین کے لیے انصاف کے بجائے خوف اور نفرت کو جنم دیتی ہے۔
گرومنگ گینگ جیسے جرائم سنگین انسانی المیے ہیں، جن کا حل تعصب نہیں بلکہ درست ڈیٹا، شفاف نظام اور ہمدرد پالیسی میں ہے۔
مجرم کسی بھی نسل، مذہب یا قوم سے تعلق رکھتے ہوں، جرم جرم ہی رہتا ہے، مگر پوری کمیونٹی کو بدنام کرنا انصاف نہیں۔
برطانیہ کو چاہیے کہ وہ اپنے حفاظتی نظام کو بہتر بنائے، تحقیق میں شفافیت لائے اور میڈیا ذمہ داری کے ساتھ رپورٹنگ کرے تاکہ بچوں کے تحفظ کا اصل مقصد حاصل ہو سکے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر مجدد نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ تین ماسٹرز ڈگریوں اور اسٹریٹجک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کے حامل ہیں۔ وہ پاکستان ایئر فورس میں ۳۳ سال خدمات انجام دینے والے سابق کمیشنڈ آفیسر بھی رہ چکے ہیں۔
View all posts
