Nigah

بھارت کا دوغلا چہرہ، عالمی قوانین کا خود ساختہ علمبردار یا قانون شکن ریاست؟

بھارت کا دوغلا چہرہ، عالمی قوانین کا خود ساختہ علمبردار یا قانون شکن ریاست؟

بھارت جو خود کو عالمی معیشت اور جمہوری اقدار کا علمبردار ظاہر کرتا ہے، درحقیقت عالمی قوانین، تجارتی ضابطوں اور اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی میں پیش پیش ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ خزانہ نے حال ہی میں بھارت کی متعدد کمپنیوں اور شہریوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں۔ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب انکشاف ہوا کہ بھارت ایرانی تیل، پیٹرولیم مصنوعات اور خطرناک کیمیکلز کی غیر قانونی تجارت میں براہِ راست ملوث ہے۔
یہ معاملہ نہ صرف امریکہ کے لیے بلکہ بین الاقوامی تجارتی نظام کے لیے بھی تشویش کا باعث بن چکا ہے، کیونکہ بھارت کی یہ سرگرمیاں عالمی توانائی منڈیوں کے استحکام کے لیے خطرہ بن رہی ہیں۔
ایران پر عائد عالمی پابندیاں واضح طور پر کسی بھی ملک یا ادارے کو اس کے تیل یا پٹرولیم مصنوعات کی خرید و فروخت سے روکتی ہیں۔ تاہم بھارت نے بارہا ان قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے کاروباری نیٹ ورکس کے ذریعے ایرانی تیل اور کیمیکلز کی ترسیل جاری رکھی۔
امریکی ذرائع کے مطابق اس نیٹ ورک میں چین اور متحدہ عرب امارات کے چند ادارے بھی شامل تھے، مگر بھارت کا کردار سب سے زیادہ نمایاں اور منظم تھا۔ بھارت کی یہی بار بار کی خلاف ورزیاں اسے خطے میں ایک غیر مستحکم اور غیر ذمہ دار طاقت کے طور پر ظاہر کر رہی ہیں، جو بین الاقوامی معاہدوں کو اپنے تجارتی مفادات پر قربان کر دیتا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے 40 افراد، کمپنیوں اور جہازوں پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے واضح پیغام دیا کہ عالمی پابندیوں کی خلاف ورزی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔
یہ کارروائیاں ایران کی غیر قانونی پٹرولیم اور کیمیکل مصنوعات کی تجارت سے متعلق ہیں، جن کے ذریعے اربوں ڈالر کے غیر قانونی سودے کیے گئے۔
اس اقدام کا مقصد عالمی تجارتی ضابطوں کو مضبوط بنانا اور ایسے ممالک کو سبق سکھانا ہے جو ان قوانین کو اپنی مرضی سے توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بھارت کا اس فہرست میں شامل ہونا نہ صرف اس کی اخلاقی پستی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس کے سفارتی تعلقات پر بھی منفی اثر ڈال رہا ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ کے دفتر برائے غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول (OFAC) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں 60 اداروں، کمپنیوں اور جہازوں کو عالمی پابندیوں کی خلاف ورزی میں ملوث قرار دیا۔
اس رپورٹ کے مطابق بھارت کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی کمپنیاں ایرانی تیل، مائع گیس (LPG) اور صنعتی کیمیکلز کی غیر قانونی نقل و حمل میں کلیدی کردار ادا کر رہی تھیں۔
امریکی محکمہ خزانہ نے واضح کیا کہ یہ نیٹ ورک منظم انداز میں کام کرتا ہے اور بھارت کی سرزمین کو عالمی اسمگلنگ کے مرکز میں تبدیل کر چکا ہے۔
یہ تعیناتیاں ثابت کرتی ہیں کہ بھارت نہ صرف خود قوانین توڑ رہا ہے بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک خطرناک مثال قائم کر رہا ہے۔

ممبئی اور دہلی سے تعلق رکھنے والی نو بڑی کمپنیاں براہِ راست امریکی پابندیوں کی زد میں آئی ہیں، جن میں موڈی کیم، پاری کیم ریسورسز، انڈیسول مارکیٹنگ، ہریش پیٹروکیم، شیو ٹیکس کیم، اور بیی کے سیلز کارپوریشن وغیرہ شامل ہیں۔
یہ تمام کمپنیاں گذشتہ دو برسوں کے دوران اربوں ڈالر مالیت کے ایرانی کیمیکلز اور تیل کی غیر قانونی تجارت میں ملوث پائی گئیں۔
ان کے ذریعے ایران کو عالمی پابندیوں کے باوجود مالی سہارا فراہم کیا گیا، جو بین الاقوامی سلامتی کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
یہ کمپنیاں بظاہر صنعتی سامان یا خام مال کی درآمدات میں مصروف تھیں، مگر درپردہ یہ ایرانی مصنوعات کو مختلف ممالک تک پہنچانے کے لیے اسمگلنگ نیٹ ورک چلا رہی تھیں۔

امریکی حکام نے صرف کمپنیوں تک کارروائی محدود نہیں رکھی بلکہ ان کے ڈائریکٹرز اور مالکان کو بھی ذاتی طور پر نشانہ بنایا ہے۔
ان میں پیوش مگن لال جاویہ، نیتی انمیش بھٹ، کملا کست، کنال کست، اور پونم کست شامل ہیں۔
ان کمپنیوں کو پابندیوں کی براہِ راست خلاف ورزی اور عالمی تجارت میں دھوکہ دہی کا مرتکب قرار دیا گیا۔
یہ اقدام اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکہ اب صرف ادارہ جاتی نہیں بلکہ انفرادی احتساب کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
بھارت کے یہ شہری عالمی سطح پر مالی لین دین اور ویزا پابندیوں کا سامنا کریں گے، جو دیگر ممالک کے لیے بھی سبق آموز مثال ہے۔

امریکی رپورٹ کے مطابق، بھارتی شپنگ نیٹ ورک اس غیر قانونی تجارت کی ریڑھ کی ہڈی تھا۔
امریکی محکمہ خزانہ نے وارون پلا، لیَپان راجا اور سونیا شریستھا جیسے افراد کو بھی پابندیوں کے دائرے میں شامل کیا، جو ایرانی LPG کی نقل و حمل میں ملوث تھے۔
ممبئی کی Vega Star Ship Management کمپنی، جس کی مالک سونیا شریستا ہے، نے ایران سے پاکستان سمیت دیگر ممالک کو LPG ترسیل میں سہولت فراہم کی۔
یہ انکشاف اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ بھارت نہ صرف اپنی کمپنیوں بلکہ پورے شپنگ انفراسٹرکچر کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے لیے استعمال کر رہا تھا۔

بھارت کا دوغلا چہرہ، عالمی قوانین کا خود ساختہ علمبردار یا قانون شکن ریاست؟
اس سے بھارت کا کردار صرف معاشی دھوکہ دہی تک محدود نہیں رہتا بلکہ توانائی کی بین الاقوامی اسمگلنگ تک پھیل جاتا ہے۔

بھارت کی یہ سرگرمیاں جنوبی ایشیا کے توانائی نظام اور مشرق وسطیٰ کی تجارتی منڈیوں کے لیے براہِ راست خطرہ بن چکی ہیں۔

ایران سے غیر قانونی تیل اور کیمیکلز کی تجارت نے عالمی قیمتوں میں غیر یقینی صورتحال پیدا کی ہے، جبکہ علاقائی استحکام کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

امریکی پالیسی ماہرین کے مطابق بھارت کی یہ روش نہ صرف امریکی مفادات کے خلاف ہے بلکہ خطے کے توانائی تحفظ کو بھی خطرے میں ڈالتی ہے۔
اس غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل نے امریکہ کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ بھارت کو ایک "اسٹریٹجک پارٹنر” کے بجائے ایک "غیر قابلِ اعتماد ریاست” کے طور پر دیکھے۔

بھارت کی کمپنیاں محض پابندیوں کی خلاف ورزی نہیں کر رہیں بلکہ عالمی توانائی اور کیمیکل مارکیٹ کے معیار کو بھی پامال کر رہی ہیں۔
ناقص، غیر معیاری اور بعض اوقات خطرناک کیمیکلز کی تجارت سے بھارت نے عالمی صارفین کے تحفظ کے قوانین کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔
یہ طرزِ عمل ایک ایسے ملک کی نشاندہی کرتا ہے جو معاشی لالچ میں بین الاقوامی اصولوں کو روندنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
ایسی معاشی بدانتظامی نہ صرف بھارت کے اندر بدعنوانی کو فروغ دے رہی ہے بلکہ عالمی منڈیوں کے اعتماد کو بھی مجروح کر رہی ہے۔

امریکہ کی جانب سے عائد کردہ یہ پابندیاں بھارت کے لیے ایک سفارتی دھچکا ثابت ہو رہی ہیں۔
دنیا بھر میں بھارت کا امیج ایک جمہوری، شفاف اور ذمہ دار ملک کے بجائے ایک دھوکہ باز اور غیر ذمہ دار ریاست کے طور پر ابھر رہا ہے۔
بین الاقوامی سرمایہ کار اب بھارتی منڈیوں میں سرمایہ کاری سے ہچکچانے لگے ہیں، کیونکہ بھارت کے قوانین پر عملدرآمد اور شفافیت پر سوال اٹھ چکے ہیں۔
بھارتی قیادت کی جانب سے اس معاملے پر خاموشی مزید سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ کیا یہ سب کچھ حکومتی سرپرستی میں ہو رہا تھا؟
اگر ایسا ہے تو بھارت نہ صرف عالمی قوانین بلکہ اپنی سفارتی اخلاقیات کی بھی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

امریکہ کی تازہ پابندیوں نے ایک بار پھر بھارت کے دوغلے پن کو بے نقاب کر دیا ہے۔
یہ وہی ملک ہے جو دنیا کے سامنے قانون، اخلاقیات اور جمہوریت کا چہرہ بنا پھرتا ہے، مگر پسِ پردہ غیر قانونی تجارت، اسمگلنگ اور عالمی ضوابط کی خلاف ورزی میں مصروف ہے۔
یہ معاملہ عالمی برادری کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ آیا وہ بھارت جیسے ملک کو مزید رعایتیں دے کر قانون شکنی کو فروغ دینا چاہتی ہے یا اصولی موقف اختیار کرے گی۔
پاکستان کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ عالمی فورمز پر بھارت کی اس دوغلی پالیسی کو بے نقاب کرے اور خطے میں شفاف تجارت اور قانونی برتری کے بیانیے کو مضبوط بنائے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر اکرام احمد

    اکرام احمد یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز سے بین الاقوامی تعلقات میں گریجویٹ ہیں۔ باتھ یونیورسٹی میں، جہاں ان کی تحقیق تنازعات کے حل، عالمی حکمرانی، بین الاقوامی سلامتی پر مرکوز ہے۔ ایک مضبوط تعلیمی پس منظر اور عالمی امور میں گہری دلچسپی کے ساتھ، اکرام نے مختلف تعلیمی فورمز اور پالیسی مباحثوں میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان کا کام بین الاقوامی تعلقات کی حرکیات اور عصری جغرافیائی سیاسی مسائل پر ان کے اثرات کو سمجھنے کے لیے گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔