Nigah

بھارت کے نئے آبی منصوبے، انسانی المیہ اور ماحولیاتی جارحیت

بھارت کے نئے آبی منصوبے، انسانی المیہ اور ماحولیاتی جارحیت

جنوبی ایشیا کے خطے میں پانی ہمیشہ زندگی، زراعت اور تہذیب کی علامت رہا ہے۔ مگر بھارت نے گذشتہ دو دہائیوں میں اسے ترقی کے بجائے جغرافیائی دباؤ اور سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ نئے پن بجلی منصوبے، بظاہر توانائی کے حصول کے لیے ہیں. مگر درحقیقت یہ خطے کے ماحول، انسانی بقا اور بین الاقوامی قوانین کے لیے ایک سنگین خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔
بھارت کا یہ رویہ نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی روح کے منافی ہے بلکہ یہ جنوبی ایشیا میں پانی کے بحران کو ایک بڑے انسانی المیے میں بدلنے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
بھارت کے شمال مشرقی علاقوں میں، خصوصاً برہم پتر اور چناب بیسن میں جارحانہ آبی توسیع کے منصوبے تیزی سے آگے بڑھائے جا رہے ہیں۔
2000 میگاواٹ کا سبانسری لوئر منصوبہ، جس کی ابتدائی لاگت 6 ہزار 285 کروڑ روپے تھی اب بڑھ کر 26 ہزار 75 کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے۔
اسی طرح 1650 میگاواٹ کا اپر سبانسری، 2880 میگاواٹ کا دیبانگ اور 1800 میگاواٹ کا کمالا ڈیم زلزلہ خیز خطوں میں تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ جہاں مقامی آبادی، ماہرین ماحولیات اور سائنسی ادارے پہلے ہی زمین کے سرکنے اور شدید ماحولیاتی نقصان کے خطرات پر خبردار کر چکے ہیں۔
ان منصوبوں کا بنیادی مقصد توانائی نہیں بلکہ دریائی بہاؤ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہے تاکہ بھارت اپنے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان اور بنگلہ دیش پر پانی کی فراہمی کو سیاسی دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کر سکے۔
بھارت نے شمال مشرقی خطے میں 208 نئے ڈیموں کی تعمیر کا اعلان کیا ہے جن کی مجموعی استعداد تقریباً 65 ہزار میگاواٹ ہے۔ بظاہر یہ چین کے میڈوگ ڈیم کے ردعمل کے طور پر پیش کیے گئے ہیں، مگر ان کے پس منظر میں کسی دوطرفہ ماحولیاتی تعاون یا خطے کی آبی پالیسی کا کوئی میکنزم موجود نہیں۔
نتیجتاً دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ سیلابی خطے خشک سالی کا شکار ہو رہے ہیں اور پانی کی تقسیم کا فطری نظام ٹوٹ رہا ہے۔
ان منصوبوں سے لاکھوں لوگوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ کسانوں کی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں، زیر زمین پانی خشک ہو رہا ہے اور دریائی مچھلیوں کی نسلیں ختم ہونے کے قریب پہنچ گئی ہیں۔
یہ تمام عوامل مجموعی طور پر جنوبی ایشیا کی ماحولیاتی سلامتی کے لیے شدید خطرہ بن چکے ہیں۔
بھارت نے جموں و کشمیر کے علاقے میں دریائے چناب پر متعدد منصوبے تیز رفتاری سے مکمل کیے ہیں، جن میں پکل دل (1000 میگاواٹ)، کیرُو (624 میگاواٹ)، کوار (540 میگاواٹ) اور رتیل (850 میگاواٹ) شامل ہیں۔
یہ تمام منصوبے سندھ طاس معاہدے کی بنیادی دفعات کے برعکس ہیں۔ جن کے تحت بھارت کو صرف محدود سطح پر آبی استعمال کی اجازت ہے۔ تاہم ان ڈیموں کے ذریعے بھارت دراصل پاکستان کے پانی کے بہاؤ کو منظم طریقے سے کم کر رہا ہے۔ جس سے پاکستان کی زرعی پیداوار، پینے کے پانی کی دستیابی اور خوراکی سلامتی براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔

modi nigah
یہ طرز عمل محض سیاسی مخالفت نہیں بلکہ ایک منظم آبی دہشت گردی کے مترادف ہے۔ جس کے دور رس اثرات پورے خطے کے امن پر مرتب ہو سکتے ہیں۔
ان ڈیموں کے نتیجے میں دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کو روکنے سے زرخیز مٹی کا بہاؤ منقطع ہو گیا ہے۔ جس سے کھیتوں کی زرخیزی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
دریائی مچھلیوں کی افزائش تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ جس نے ہزاروں ماہی گیروں کے روزگار کو متاثر کیا ہے۔
سیلابی علاقوں میں پانی کے دباؤ میں اضافہ ہونے سے زمین کے دھنسنے اور دریا کے رخ بدلنے جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
ان منصوبوں کی تعمیر کے دوران لاکھوں افراد کو زبردستی بے دخل کیا گیا۔ بغیر کسی متبادل زمین یا معاوضے کے۔

یہ صورتحال بین الاقوامی قانون کے مطابق حقِ زندگی، حقِ رہائش اور حقِ ماحول کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

بھارت کا ترقی کے نام پر ماڈل دراصل ماحولیاتی ناانصافی کی ایک مثال بن چکا ہے۔ جہاں ترقی کا بوجھ سب سے زیادہ غریب اور مقامی آبادی اٹھا رہی ہے۔
بھارت کے ان آبی منصوبوں کی ایک بڑی خصوصیت غیر شفافیت ہے۔
نہ تو مقامی حکومتوں سے مشاورت کی جاتی ہے، نہ ماحولیاتی اثرات کی تفصیلی رپورٹیں شائع کی جاتی ہیں۔
سبانسری، دیبانگ اور پکل دل جیسے منصوبوں کی لاگت ابتدا میں کم ظاہر کی گئی۔ مگر بعد میں یہ چار سے پانچ گنا تک بڑھ گئی۔
اس لاگت میں اضافے کا بوجھ آخرکار بھارتی عوام پر ٹیکس اور بجلی کے نرخوں کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ جب کہ فائدہ صرف چند بڑی نجی کارپوریشنوں اور بیوروکریسی کو حاصل ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرین اسے ماحولیاتی کرپشن اور پالیسی شفافیت کی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔
بھارت کے شمال مشرقی اور ہمالیائی علاقوں میں مقامی برادریاں ان منصوبوں کے خلاف مسلسل آواز اٹھا رہی ہیں۔
اروناچل پردیش، آسام، ہماچل پردیش اور جموں و کشمیر میں احتجاجی تحریکیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام ان منصوبوں کو اپنے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
تاہم بھارتی حکومت ان آوازوں کو قومی سلامتی اور ترقی دشمنی کے الزامات کے ذریعے دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
مقامی رہنما، سماجی کارکن اور ماہرین ماحولیات کو مقدمات، نظربندیوں اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔
اس طرح بھارت نہ صرف اپنے شہریوں کے جمہوری حقوق کو کچل رہا ہے بلکہ ایک پائیدار مستقبل کی راہیں بھی مسدود کر رہا ہے۔
پاکستان نے بارہا اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کی توجہ بھارت کے ان اقدامات کی طرف دلائی ہے۔
اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ بھارت کا یہ رویہ نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے خطے میں ماحولیاتی بحران بھی شدید تر ہو رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عالمی برادری نے فوری طور پر مشترکہ آبی حکمت عملی تشکیل نہ دی تو جنوبی ایشیا جلد ہی پانی کے بحران سے جڑے تصادموں کا مرکز بن سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے کنونشن آن دا لا آف نان نیویگیبل واٹر کورسز کے مطابق پانی کو سیاسی دباؤ یا عسکری ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ لیکن بھارت اس اصول کو مسلسل نظرانداز کر رہا ہے۔
اس مسئلے کا واحد حل مشترکہ آبی نظم، شفافیت اور ماحولیاتی انصاف میں ہے۔
بھارت اگر واقعی ترقی اور توانائی کا خواہاں ہے تو اسے ایسے منصوبے اپنانا ہوں گے جو انسانی حقوق، ماحول اور خطے کے امن سے ہم آہنگ ہوں۔
علاقائی سطح پر پاکستان، بھارت، نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش کے درمیان مشترکہ آبی کمیشن تشکیل دیا جانا چاہیے۔ جو دریائی بہاؤ کے منصفانہ استعمال، ماحولیاتی توازن اور مقامی برادریوں کے حقوق کی ضمانت دے۔
پانی دشمنی نہیں بلکہ تعاون کا ذریعہ بن سکتا ہے، اگر نیت انصاف اور شراکت داری پر مبنی ہو۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر مزمل خان

    مزمل خان سیاست اور بین الاقوامی معاشیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ، ان کا تعلیمی کام اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ کس طرح بنیادی ڈھانچہ اور جغرافیائی سیاسی حرکیات تجارتی راستوں اور علاقائی تعاون کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ موزممل شواہد پر مبنی تحقیق کے ذریعے پالیسی مکالمے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرجوش ہے اور اس کا مقصد تعلیمی انکوائری اور عملی پالیسی سازی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔