سال 2025 کا پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ ایسا دور جس میں مذہبی رواداری، قانونی اصلاحات اور سماجی شمولیت کو قومی پالیسی کے بنیادی ستون قرار دیا گیا ہے۔ ماضی میں جہاں مذہبی اختلافات اور انتہا پسندی نے معاشرتی ہم آہنگی کو متاثر کیا۔ وہیں اب ملک بتدریج ایک ایسے نظام کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں تمام شہری خواہ ان کا مذہب یا مسلک کچھ بھی ہو، قانون کے سامنے برابر ہیں۔
حکومتِ پاکستان نے گذشتہ دو برسوں میں مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کئی عملی اقدامات کیے ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سے لے کر مذہبی مقامات کی بحالی تک۔ ریاست نے آئین کے آرٹیکل 20 اور قائداعظم محمد علی جناح کے وژن کو عملی شکل دی ہے جو مساوات، آزادی اور احترام انسانیت پر مبنی تھا۔
2022 میں قائم ہونے والا نیشنل کمیشن برائے اقلیتیں، پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا مرکزی ادارہ بن چکا ہے۔ یہ کمیشن نہ صرف پالیسی سازی میں مشاورتی کردار ادا کرتا ہے بلکہ حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر مذہبی آزادی، روزگار کے مواقع اور سماجی مساوات کے لیے سفارشات بھی پیش کرتا ہے۔
کمیشن کے تحت 5 فیصد ملازمتوں کا کوٹہ اقلیتوں کے لیے مختص ہے۔ جبکہ ایک ارب روپے کا فلاحی فنڈ تعلیم، صحت اور کاروباری مواقع کے لیے فراہم کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدامات اقلیتوں کو صرف دستوری طور پر نہیں بلکہ عملی میدان میں بھی بااختیار بنانے کی سمت اہم سنگ میل ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین ماضی میں بعض اوقات غلط استعمال کا شکار رہے ہیں۔ جس سے نہ صرف بےگناہ افراد متاثر ہوئے بلکہ معاشرتی انتشار بھی پیدا ہوا۔ اس پس منظر میں 2023 تا 2025 کے دوران حکومت نے ان قوانین میں اہم اصلاحات متعارف کرائیں۔
اب کسی بھی مقدمے میں گرفتاری سے قبل پولیس کی اعلیٰ سطحی تصدیق لازمی قرار دی گئی ہے۔ مزید برآں پنجاب ایکسٹریمزم بل 2024 کے تحت ہجوم کے تشدد کو علیحدہ جرم کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ جس کی سزا سخت قید اور بھاری جرمانہ ہے۔
یہ اصلاحات انصاف کے تقاضوں کو مضبوط کرتی ہیں اور اس بات کی ضمانت فراہم کرتی ہیں کہ کوئی فرد ذاتی یا سیاسی بنیادوں پر مذہب کے نام پر نشانہ نہ بن سکے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اس ضمن میں متعدد فیصلوں میں واضح کیا ہے کہ توہین مذہب کے مقدمات میں ثبوت، شواہد اور نیت کی جانچ انتہائی ضروری ہے۔
پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کی ایک بڑی علامت وہ منصوبے ہیں جن کے تحت مختلف مذاہب کے مقدس مقامات کی بحالی اور تزئین کی گئی ہے۔ ہنگلاج ماتا مندر کی مرمت، قدیم گرجا گھروں کی بحالی اور کرتارپور راہداری کا قیام اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین کو تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے قابل احترام سمجھتا ہے۔
یہ اقدامات نہ صرف بین الاقوامی خیرسگالی کو فروغ دے رہے ہیں بلکہ مذہبی سیاحت کے فروغ کے ذریعے پاکستان کی معیشت میں بھی نیا باب کھول رہے ہیں۔ دنیا بھر کے زائرین کے لیے یہ پیغام واضح ہے کہ
پاکستان امن، رواداری اور بقائے باہمی کا داعی ملک ہے۔
`ہندو اور عیسائی برادریوں کے ازدواجی قوانین میں کی جانے والی حالیہ اصلاحات نے ایک اہم سنگِ میل عبور کیا ہے۔ 2024 میں متعارف شدہ ترامیم کے تحت جبری تبدیلی مذہب کے امکانات کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ اب شادی یا مذہب کی تبدیلی دونوں صرف بالغ اور آزاد مرضی سے ممکن ہیں۔
یہ اقدام مذہبی آزادی، شخصی وقار، اور انسانی حقوق کے تحفظ کے عزم کا مظہر ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، اور او آئی سی نے ان اصلاحات کو پاکستان کے ترقی پسند تشخص کی علامت قرار دیا ہے۔
حکومت نے قومی نصاب میں مذہبی اور ثقافتی تنوع کو شامل کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ اب اسکولوں میں طلبا کو مختلف مذاہب، ثقافتوں اور ان کی مشترکہ انسانی اقدار سے روشناس کرایا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد تعصب کے بجائے فہم، احترام اور برداشت کو فروغ دینا ہے۔
ساتھ ہی بین المذاہب نوجوان پروگرامز شروع کیے گئے ہیں جن کے تحت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے نوجوان مشترکہ سرگرمیوں، مباحثوں اور سماجی منصوبوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ پروگرام نسل نو کے درمیان مکالمے اور ہم فہمی کو مضبوط کر رہے ہیں۔
ڈیجیٹل دور میں مذہبی اشتعال انگیزی اور نفرت انگیز مواد ایک نیا چیلنج ہے۔ اسی لیے حکومت نے ڈیجیٹل رائٹس فریم ورک 2023 کے تحت ایک متوازن نظام وضع کیا ہے جس میں آزادیٔ اظہار اور نفرت انگیزی کی روک تھام دونوں کو یکساں اہمیت دی گئی ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے نفرت انگیز مواد کے خاتمے، غلط معلومات کی روک تھام اور بین المذاہب احترام کے فروغ کے لیے سول سوسائٹی کے اشتراک سے ضابطۂ اخلاق تیار کیا گیا ہے۔
ان تمام اقدامات کے نتیجے میں عالمی سطح پر پاکستان کی شبیہہ میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ یونیسکو، اقوام متحدہ اور امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) جیسے اداروں نے پاکستان کے اقدامات کو ’’اصلاحات کی نئی مثال‘‘ قرار دیا ہے۔
اب پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو عدم برداشت کے بیانیے سے نکل کر قانون کی بالادستی، شمولیت اور ہم آہنگی کے راستے پر گامزن ہے۔ اقلیتی رہنما فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہیں اور قومی سطح پر مذہبی تنوع کو قبولیت حاصل ہو رہی ہے۔
انتہا پسندی اور نفرت انگیزی کے خاتمے کے لیے علمائے کرام کا کردار کلیدی ہے۔ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے تحت علما کو مشترکہ پلیٹ فارم پر متحد کیا گیا ہے تاکہ وہ خطبات، دروس، اور عوامی مکالمے میں امن، رواداری، اور بقائے باہمی کا پیغام عام کریں۔
یہ اقدام ریاستی اور مذہبی قیادت کے درمیان اعتماد کی نئی فضا قائم کر رہا ہے۔ مختلف مکاتب فکر کے علماء نے مشترکہ اعلامیے میں اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ کوئی بھی مذہب یا فقہی اختلاف تشدد یا نفرت کا جواز فراہم نہیں کر سکتا۔
پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کی یہ اصلاحات صرف قانونی یا انتظامی اقدامات نہیں، بلکہ ایک سماجی ارتقاء کی علامت ہیں۔ ایک ایسا ارتقاء جو معاشرے کو انتہا پسندی کے سائے سے نکال کر فہم و احترام کی روشنی میں لے جا رہا ہے۔
آج کا پاکستان اُس نظریے کی عملی تصویر بنتا جا رہا ہے جو بانی پاکستان نے 11 اگست 1947 کی تقریر میں پیش کیا تھا کہ
آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جانے کے لیے، اپنی مساجد میں جانے کے لیے اور پاکستان کی اس ریاست میں کسی بھی مذہب یا عقیدے کی پیروی کرنے کے لیے۔
یہی وژن آج کے پاکستان میں اصلاحات، قانون کی بالادستی اور مذہبی رواداری کے ذریعے حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
اکرام احمد یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز سے بین الاقوامی تعلقات میں گریجویٹ ہیں۔ باتھ یونیورسٹی میں، جہاں ان کی تحقیق تنازعات کے حل، عالمی حکمرانی، بین الاقوامی سلامتی پر مرکوز ہے۔ ایک مضبوط تعلیمی پس منظر اور عالمی امور میں گہری دلچسپی کے ساتھ، اکرام نے مختلف تعلیمی فورمز اور پالیسی مباحثوں میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان کا کام بین الاقوامی تعلقات کی حرکیات اور عصری جغرافیائی سیاسی مسائل پر ان کے اثرات کو سمجھنے کے لیے گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔
View all posts

