استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات ایک بار پھر ڈیڈلاک کا شکار ہوگئے۔ بظاہر یہ ملاقات خطے میں امن و استحکام کے لیے ایک نئی امید سمجھی جا رہی تھی، مگر نتیجہ وہی نکلا جو ماضی کے تجربات میں بارہا دیکھنے کو ملا۔ وعدے، تاویلات، اور آخر میں ایک بار پھر غیر یقینی کا دھواں۔ اس تعطل نے نہ صرف علاقائی تعاون کے امکانات کو دھندلا دیا بلکہ افغان طالبان کی نیت اور سنجیدگی پر بھی نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
پاکستان نے ان مذاکرات میں ترکیہ اور قطر کی ثالثی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے انتہائی سنجیدگی سے شرکت کی۔ اسلام آباد کا مقصد واضح تھا، کہ امن کا راستہ بات چیت سے ہی نکل سکتا ہے، مگر وہ بات چیت جو دوٹوک، شفاف اور قابلِ عمل ہو۔ پاکستان نے مذاکرات کے آغاز ہی میں اپنا مؤقف بے لاگ انداز میں پیش کیا کہ زبانی یقین دہانیاں اب ناکافی ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں افغان حکومت کی طرف سے ایسے بیانات کی لمبی فہرست ہے جن میں دہشت گردوں کے خاتمے کا وعدہ کیا گیا، مگر زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔
پاکستان نے استنبول میں ایک مضبوط اور اصولی موقف اپنایا کہ تعاون اسی صورت ممکن ہے جب وہ دوطرفہ، قابلِ عمل اور قابلِ نفاذ ہو۔ یہ مؤقف کسی جذباتی ردِعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ پاکستان کی طویل قربانیوں اور تجربات کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ایک حقیقت پسندانہ مطالبہ ہے۔
اسلام آباد نے واضح کیا کہ وہ اب صرف وعدوں پر نہیں بلکہ عملی اقدامات پر یقین رکھتا ہے۔
دہشت گردی کے خاتمے کی کوششیں تبھی بار آور ہوں گی جب ان کے نتائج قابلِ پیمائش ہوں، یعنی دہشت گرد نیٹ ورکس کا خاتمہ، ان کے رہنماؤں کی گرفتاری، اور سرحد پار سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی کا ٹھوس ثبوت ہونا چاہیئے۔
قانون اور اصول کی بنیاد پر
پاکستان کا بنیادی مطالبہ نہ تو غیر معمولی ہے، نہ کسی ملک کی خودمختاری کے خلاف۔ اسلام آباد کا واضح کہنا ہے کہ افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کیا جائے، ان کے رہنماؤں کو قانون کے مطابق پاکستان کے حوالے کیا جائے، اور اس حوالے سے تحریری یقین دہانی فراہم کی جائے۔ یہ مطالبہ کسی سیاسی یا عسکری دباؤ کے تحت نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہے، جن کے تحت کوئی بھی ملک اپنی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیتا۔ لیکن بدقسمتی سے افغان وفد نے ایک بار پھر روایتی تذبذب کا مظاہرہ کیا۔ مذاکرات کے آخری مرحلے میں وہی پرانی تاویلیں اور تاخیر کے حربے سامنے آئے۔ کبھی معلومات کی کمی کا بہانہ، کبھی داخلی پیچیدگیوں کا حوالہ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مذاکرات بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہوگئے، جس سے واضح ہو گیا کہ افغان طالبان کے اندر اب بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کے حق میں نہیں۔
حقائق کا منفی تاثر
مذاکرات کے فوراً بعد افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان جاری کیا جس میں پاکستان کے مؤقف کو نہ صرف توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا بلکہ حقیقت کے برعکس بیانیہ دیا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان غیر حقیقی مطالبات کر رہا ہے اور افغان حکومت اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کر چکی ہے۔ یہ بیان نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ ایک پرانے پروپیگنڈا ماڈل کی تجدید ہے، جو حیرت انگیز طور پر بھارت کے تیار کردہ بیانیے سے مشابہت رکھتا ہے۔ بھارت ہمیشہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا بہانہ بنا کر افغانستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے، اور وہ اپنی سلامتی کے لیے ان عناصر کے خاتمے کا مطالبہ کر رہا ہے جو کھلے عام افغانستان میں موجود ہیں۔
پاکستان کی خفیہ رپورٹس، اقوامِ متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم، اور بین الاقوامی ذرائع سب اس بات پر متفق ہیں کہ ٹی ٹی پی کی قیادت، تربیت اور فنڈنگ کے نیٹ ورکس اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ ان کے عسکری کیمپ کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا جیسے علاقوں میں سرگرم ہیں، جہاں سے پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اگر افغان حکومت واقعی سمجھتی ہے کہ اس کی سرزمین دہشت گردی سے پاک ہے، تو پاکستان نے تجویز دی ہے کہ ایک مشترکہ بین الاقوامی مانیٹرنگ میکنزم تشکیل دیا جائے، جس میں ترکیہ، قطر اور اقوامِ متحدہ کے نمائندے شامل ہوں۔ اس طریقے سے حقائق سب کے سامنے آ جائیں گے اور جھوٹا پروپیگنڈا خود بخود بے نقاب ہو جائے گا۔
پاکستان کی پالیسی ہمیشہ سے بات چیت، امن اور علاقائی تعاون پر مبنی رہی ہے۔ اسلام آباد نے کبھی بھی افغان عوام کے خلاف کوئی جارحانہ رویہ اختیار نہیں کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ چالیس برسوں سے پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی، انہیں تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کیے، اور کبھی بھی ان پر جبر یا نفرت کی سیاست نہیں کی۔ اس کے باوجود اگر افغانستان سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی ہو رہی ہے تو یہ پاکستان کا نہیں بلکہ کابل انتظامیہ کا امتحان ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ یہ مؤقف اپنایا کہ ایک مستحکم افغانستان ہی خطے کے امن کی ضمانت ہے۔
اسی لیے پاکستان نے ہر فورم پر افغان مفاہمت کی حمایت کی، چاہے وہ دوحہ مذاکرات ہوں، ماسکو فارمیٹ، یا اب استنبول عمل، مگر ان تمام کوششوں کے باوجود جب دہشت گردی کی لہر دوبارہ سرحد پار سے اٹھتی ہے تو پاکستان کے لیے خاموش رہنا ممکن نہیں۔
پاکستان کے عوام اور افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ پچھلے دو دہائیوں میں 80 ہزار سے زائد جانیں ضائع ہوئیں، معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچا، اور سماجی ڈھانچہ زخموں سے چور ہو گیا۔ ایسے میں پاکستان کے لیے یہ ناقابلِ قبول ہے کہ ایک پڑوسی ملک کی سرزمین اس کے خلاف استعمال ہوتی رہے اور جواب میں صرف زبانی تسلیاں دی جائیں۔
پاکستان اب ایک نئے عزم کے ساتھ واضح کر چکا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ محض بیان بازی سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے جیتی جا سکتی ہے۔ اسی لیے اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ اگر افغانستان سنجیدہ ہے تو وہ تحریری ضمانت دے، دہشت گرد رہنماؤں کی حوالگی کے عمل میں شریک ہو، اور مشترکہ مانیٹرنگ نظام کو قبول کرے۔ ورنہ دنیا خود دیکھ لے گی کہ رکاوٹ کہاں ہے۔
نتیجہ
استنبول مذاکرات کا ڈیڈلاک دراصل ایک سبق ہے، یہ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ
اعتماد صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عمل سے بحال ہوتا ہے۔
پاکستان نے اپنا کردار ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر ادا کیا ہے: امن کے لیے پیش قدمی، مکالمے کے لیے آمادگی، اور خطے کی سلامتی کے لیے مسلسل قربانیاں۔ مگر اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان اپنی ذمہ داری قبول کرے۔
ذبیح اللہ مجاہد کے بیانات وقتی پروپیگنڈے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا کابل اپنی سرزمین کو واقعی دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے تیار ہے؟ اگر ہاں، تو پھر اس کی سب سے بڑی آزمائش عملی شفافیت اور بین الاقوامی اعتماد میں ہے۔
امن چاہتے ہیں، مگر کمزوری کے نہیں، برابری، باہمی احترام، اور ٹھوس عمل کے ساتھ۔
کیونکہ اب پاکستان اپنے عوام کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
اسلام آباد میں مقیم ایک آزاد محقق اور ان کی دلچسپی کا شعبہ سیکورٹی اور جیو پولیٹکس ہے۔
View all posts

