بھارت کے جمہوری چہرے کے پیچھے چھپا ہوا فسطائی اور جابرانہ کردار ایک بار پھر دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے کینیڈا سمیت مغربی ممالک میں سکھ ڈائسپورا کے بھرپور احتجاجی مظاہرے اس حقیقت کا اعلان ہیں کہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور خفیہ قتل و غارت گری اب صرف کشمیر یا بھارت کی اندرونی سیاست تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔یہ مظاہرے محض سکھوں کا رد عمل نہیں بلکہ عالمی انصاف کی ایک نئی تحریک کا اغاز ہے جو بھارت کی ہندو توا پر مبنی جاریت کے خلاف متحد ہو چکی ہے۔کینیڈا بھر میں سکھوں کے تاریخی مظاہروں سے خوف کی زنجیر ٹوٹ گئی ہے ٹورنٹو، وینکوور، مونٹریال اور کیلگری جیسے بڑے شہروں میں ہزاروں سکھ مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر بھارت کے خلاف نعرے بلند کیے بینرز اور پلے کارڈز پر واضح پیغام درج تھا کہ مودی کا بھارت دہشت گرد ریاست ہے، سچ بولنے والوں کو قتل نہیں کیا جا سکتا اور خالصتان ہماری شناخت ہے۔مظاہرین نے دنیا کے سامنے یہ ثبوت رکھے کہ بھارتی حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسیاں بیرون ملک سکھ رہنماؤں کے قتل اور نگرانی میں براہ راست ملوث ہیں یہ مظاہرے اس بات کی علامت بن گئے کہ سکھ ڈائسپورا اب خوف کی زنجیر توڑ چکا ہے اور بھارت کی ہندوتوا پر مبنی ریاستی دہشت گردی کو بے نقاب کرنے کے لیے پر عزم ہے۔
خالصتان تحریک کے رہنما ہردیپ سنگھ نجار کا قتل ایک ایسا واقعہ تھا جس نے بھارت کے جمہوری چہرے کو عالمی سطح پر چاک کر دیا ۔
کینیڈین انٹیلیجنس کے مطابق اس قتل میں بھارتی ایجنٹس براہ راست ملوث تھے۔نجار صرف ایک سیاسی کارکن نہیں بلکہ آزادی رائے اور خودارادیت کے لیے آواز اٹھانے والی علامت بن چکی تھی۔ان کے قتل کے بعد کینیڈین حکومت اور عوامی حلقوں میں شدید رد عمل سامنے آیا۔اب شواہد اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ نجار کے بعد دیگر خالصتانی رہنما بھی بھارتی خفیہ نیٹورک کے نشانے پر ہیں۔عوامی غصہ اب سیاسی طوفان میں بدل چکا ہے اور بھارت کی سفارتی حیثیت کینیڈا سمیت مغربی دنیا میں تیزی سے گرتی جا رہی ہے۔
مودی سرکار خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔بھارت اب ایک ریاستی دہشت گرد ملک بن چکا ہے جو اپنے شہریوں کو ان کے عقائد، نظریات یا سیاسی اختلافات کی بنیاد پر نشانہ بناتا ہے۔مسلمانوں، دلتوں اور عیسائیوں کے بعد اب سکھ برادری بھارتی ریاستی جبر کا تازہ ہدف ہے۔خالصتان کے حامیوں پر جھوٹے مقدمات، میڈیا پر پابندیاں اور سوشل میڈیا پر مہمات اس دوغلے نظام کی واضح مثالیں ہیں۔بھارت کے اندر اور باہر آزادی رائے کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔کینیڈا، آسٹریلیا، امریکہ اور برطانیہ میں بھارتی خفیہ ایجنسیاں خفیہ نیٹ ورکس کے ذریعے سرگرم ہیں۔ان کا مقصد سکھ آزادی پسندوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور بھارت کے ناقدین کو ہراساں کرنا، ان کی نگرانی کرنا اور کئی صورتوں میں انہیں نشانہ بنانا ہے۔یہ عمل کینیڈا کی خود مختاری کے ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔بھارت کی یہ حرکتیں اس سے ایک روگ اسٹیٹ کے طور پر پیش کر رہی ہیں جو اپنے مفادات کے لیے عالمی قوانین کو پامال کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔مودی سرکار اب عالمی برادری میں تنہائی کا شکار ہو چکی ہے اور عالمی میڈیا بھارت کے خلاف تنقید کر رہا ہے۔
کینیڈین حکومت نے حال ہی میں بشنوئی گینگ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔یہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر بیرون ملک سکھ کارکنوں پر حملوں میں ملوث ہے۔یہ انکشافات دنیا کے سامنے یہ حقیقت کھول چکے ہیں کہ
بھارت خفیہ کارروائیوں کے لیے منظم جرائم پیشہ گروہوں کو بطور ریاستی ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔
یہ وہی ہندو توا پالیسی کا تسلسل ہے جو خطے میں دہشت گردی کو فروغ دے کر اپنے ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔ہندو توا نظریہ جو نریندر مودی، امیت شاہ اور آر ایس ایس کی نظریاتی خمیر سے پھوٹا ہے، اب عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ میں سکھ، کشمیری، دلت اور دیگر اقلیتیں متحد ہو کر اس نظریے کی مخالفت کر رہی ہیں۔کینیڈا کی سکھ برادری نے بھارتی مظالم کے خلاف عالمی مہم کا اغاز کر دیا ہے۔خالصتان ریفرنڈم اور بین الاقوامی تحقیقات کے مطالبات اس بات کی علامت ہیں کہ دنیا بھارت کے مظالم پر مزید خاموش نہیں رہے گی۔
یہ تحریک صرف سکھوں کی نہیں بلکہ ہر اس مظلوم طبقے کی ہے جو مودی کے ہندو توا فسطائیت کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔مودی حکومت کی جارحانہ پالیسیاں اب الٹا اثر دکھا رہی ہیں۔جہاں ایک طرف بھارت خود کو عالمی طاقت کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے وہیں دوسری جانب بیرون ملک خفیہ قتل، سیاسی دھمکیاں اور ریاستی پشت پناہی والے حملوں نے اس کی ساکھ کو داغدار کر دیا ہے۔کینیڈا، امریکہ اور آسٹریلیا نے بھارت کی سرگرمیوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔کینیڈا نے کھل کر کہا ہے کہ ہماری زمین پر کسی دوسرے ملک کی خفیہ کارروائیاں برداشت نہیں کی جائیں گی۔یہ بیان مودی سرکار کے لیے ایک سفارتی جھٹکا ہے جس نے بھارتی جمہوریت کے نقاب کو اتار دیا ہے۔
کینیڈا میں سکھ برادری کا احتجاج صرف ایک مظاہرہ نہیں بلکہ عالمی بیداری کی علامت ہے۔اب بھارت کے مظالم، خفیہ کاروائیوں اور ریاستی سطح پر قتل کی وارداتوں کے خلاف اواز دبائی نہیں جا سکتی۔مودی حکومت کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جس قوم کو وہ تقسیم اور خوفزدہ رکھنا چاہتا ہے وہ اب دنیا کے ہر کونے میں متحد ہو رہی ہے۔خالصتان کا نعرہ محض سیاسی نہیں بلکہ انصاف، خود مختاری اور انسانی وقار کی بحالی کا تعلق بن چکا ہے۔بھارت اپنے اندرونی تضادات اور اقلیت دشمن پالیسیوں سے عالمی امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارتی ریاستی جرائم کا فوری نوٹس لے اور بیرون ملک سکھ رہنماؤں کے قتل کی بین الاقوامی تحقیقات شروع کریں۔
سکھ ڈائسپورا کی بیداری بھارت کے لیے ایک تاریخی انتباہ ہے۔ظلم اور فریب کے سائے میں جمہوریت زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔
مودی سرکار کی ہندو توا پر مبنی پالیسی صرف بھارت کی اقلیتوں کے لیے نہیں بلکہ عالمی استحکام کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔
کینیڈا میں سکھوں کے احتجاج نے یہ پیغام دیا کہ ظلم خواہ کسی شکل میں ہو، اب اس کے خلاف عالمی اتحاد جنم لے چکا ہے۔
بھارت کے لیے یہی وقت ہے کہ وہ فسطائی روش ترک کرے، ورنہ اس کا جمہوری نقاب دنیا کے سامنے ہمیشہ کے لیے اتر جائے گا۔.
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
مزمل خان سیاست اور بین الاقوامی معاشیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ، ان کا تعلیمی کام اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ کس طرح بنیادی ڈھانچہ اور جغرافیائی سیاسی حرکیات تجارتی راستوں اور علاقائی تعاون کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ موزممل شواہد پر مبنی تحقیق کے ذریعے پالیسی مکالمے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرجوش ہے اور اس کا مقصد تعلیمی انکوائری اور عملی پالیسی سازی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔
View all posts

