اب اس طولانی بحث میں جائے بغیر کے ملک کے دگرگوں معاشی حالات کے باعث ملک چھوڑ کر نوکری اور مستقبل کی تلاش میں باہر جانا چاہیے یا نہیں، ہمیں اب اپنا زاویہ نظر دیگر اہم معاملات پہ رکھنا چاہیے۔
جانے والوں کو بھلا کون روک سکا ہے، جن کو لگتا ہے کہ کچھ برس یورپ میں رہ کر کچھ پیسے کما لیں گے اور پھر واپس آ جائیں گے، جن کو لگتا ہے اب گزارا بس امریکہ، آسٹریلیا یا کینیڈا میں ہی ہو سکتا ہے، یا پھر وہ جو صرف پڑھنے گئے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد واپس اپنے ملک لوٹ آنے کا ارادہ رکھتے ہیں، ان میں سے آج تک کوئی بھی واپس نہیں آیا ہے۔
تارکین وطن میں شامل خواتین ترک وطن کے اس مشکل اور جذباتی عمل میں سامان باندھنے اور سامان کھولنے اور نئے ملک، نئے گھر، نئے ماحول کو سمجھنے میں لگ جاتی ہیں۔
سال بھر تو یہی کہتے گزر جاتا ہے کہ ابھی تو ہم نئے آئے ہیں ابھی خود کو سیٹ کر رہے ہیں۔ لیکن کچھ ہی مہینوں میں احساس ہو جاتا ہے کہ نئے ملک میں نہ خاندانی سپورٹ ہے، نہ مالی طور پر استحکام کہ گھر بیٹھے گزر رہی ہے۔
ان خاندانوں کے مرد اپنی تعلیم اور نوکری میں مصروف ہو جاتے ہیں اور ساتھ جانے والی لڑکیاں بےکار۔ جن سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی کوئی نوکری ڈھونڈ لو، فارغ ہی تو ہوتی ہو، ان گوری عورتوں کو دیکھو یہ تو گھر بھی چمکا کر رکھتی ہیں اور ہر جگہ کام کرتی بھی نظر آتی ہیں۔
اس مسئلے پہ تو اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزین بھی سر پکڑ کر بیٹھا ہے کہ ہجرت کر نے والے خاندانوں کے مردوں کو تو جیسے تیسے نوکری مل جاتی ہے، ایسے خاندانوں کی خواتین بےروزگار بیٹھی رہتی ہیں۔ ڈھیر ساری تحقیقات ہوئیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، نتائج میں نکلا کہ نئے ملک میں پناہ گزین خواتین کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، کہیں ان خواتین کے شوہر انہیں سپورٹ کرتے نظر نہیں آتے، اور کہیں یہ خواتین خود اتنی تربیت یافتہ نہیں ہوتیں کہ کوئی کام کر سکیں۔
اسی مسئلے کے پیش نظر مغربی ممالک میں بڑی کمپنیاں تعلیم اور ہنریافتہ پناہ گزین خواتین کو بالخصوص نوکری دیتی ہیں تاکہ وہ اسے اپنی کمپنی کی پالیسی کہہ کر واہ واہ سمیٹ سکیں۔
میں اس وقت ناروے اور یورپ میں اپنے حلقہ احباب میں ایسی کئی خواتین کو جانتی ہوں کہ جن کے پاس تعلیم ہے لیکن کسی کام کی مہارت نہیں ہے اس لیے ڈھنگ کی نوکری ان کے لیے خواب ہے۔
اب جا کر خیال آتا ہے جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو اپنے خاندان کی ان خواتین کی زبانی سنتے تھے جن کے شوہر انہیں کینیڈا یا امریکہ بلانے والے تھے اور وہ نرسری کے بچوں کو پڑھانے کی ٹریننگ لے رہی ہیں، یا پھر بیوٹی پارلر کا کوئی کورس کر رہی ہیں۔
وہ لڑکیاں جنہیں کچھ ہی عرصے میں باہر سکونت کے لیے جانا پڑے گا یا وہ لڑکیاں جن کے رشتے باہر ہو چکے انہیں فی الفور ابھی سے اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
باہر نکلیں تو یہ سوچ کر نکلیں کہ یا تو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کسی شعبے میں مہارت ہو تو نوکری مل جائے گی، ورنہ کوئی کام کا کام سیکھیں کیونکہ یہاں آپ کی یونیورسٹی ڈگری کی بنیاد پہ نوکری ملنا قدرے مشکل ہے خاص طور پہ اگر ڈگری سوشل سائنس کے موضوعات میں ہے تو پھر نہ ہی سمجھیں۔
ٹیکنالوجی، آرٹیفشل انٹیلی جنس، ڈیٹا سائنس کے بےشمار کورس ایسے ہیں کہ اگر ان میں مہارت ہو تو بعض کمپنیاں یونیورسٹی کی تعلیم کا بھی نہیں پوچھتیں۔
ترجیح تو ٹیکنالوجی کے شعبے کو ہی دینی چاہیے لیکن یہ اگر ان لڑکیوں کا شعبہ نہیں تو انہیں صرف خوشبودار موم بتیاں بنانے کا ہی ہنر آتا ہو، ان کے کام آئے گا۔
بال تراشنے کی ٹریننگ، بیکنگ، کوکنگ کے باقاعدہ کورسز، نرسنگ اور بزرگوں کی کیئر کی تربیت، فوڈ سائنس کے پروفیشل کورس، بچوں کی تعلیم و تربیت کے کورسز، میڈیکل کے شعبے میں معاونین کے کورسز اور بھی کئی طرح کے ہنر ہیں جو ان لڑکیوں کو نوکری دلوانے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔
لڑکیاں یہ معمولی ریسرچ کر لیں جس ملک میں ان کی فیملی جا رہی ہے وہاں زیادہ ڈیمانڈ میں کون سے کام ہیں بس اسی کی بنیاد پہ پاکستان سے ٹریننگ لے کر آئیں۔
پاکستان میں لاتعداد ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز، اور پیشہ ورانہ ٹریننگ کے سیکڑوں ادارے ہیں جو تین ماہ کے کریش کورس کرا دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پہ یہ خبریں اکثر گردش میں رہتی ہیں کہ فلاں یورپی ملک کو افرادی قوت کی شدید کمی کا سامنا ہے، فلاں ملک میں نرسنگ عملے کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ خبریں ان مغربی ممالک میں آبادی اور عمر کے بےتوازن ہونے کی طرف اشارہ ہیں لیکن یہ ہم نوجوان اور آبادی سے لبالب بھرے مشرقی و جنوبی ممالک کے لیے مواقع ہیں۔
اس خلا کو پاکستانی، بنگالی، بھارتی، فلپائنی، اور لاطینی امریکہ کے نوجوان، اور اب جنگوں کے بعد بہت سے عرب ممالک کے نوجوان پُر کر رہے ہیں۔
لیکن اس افرادی قوت میں ماہر، ہنر مند، تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ خواتین کی شدید کمی ہے جسے یہ نوجوان لڑکیاں پورا کر سکتی ہے بس ان کے کچھ سیکھ کر باہر جانے کی دیر ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے نگاہ میڈیا کا متفق ہونا ضروری نہیں۔