Nigah

کٹھ پتلی حکومت نہیں اصلی فیصلہ ساز فوجی قیادت سے مذاکرات ترجیح ہیں: عمران خان

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی ’کٹھ پتلی حکومت کے بجائے اصلی فیصلہ ساز فوجی قیادت کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح‘ دے گی۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر جاری کیے جانے والے بیان میں عمران خان نے کہا ہے کہ ’ہم نے محمود خان اچکزئی کو مذاکرات کا مینڈیٹ دیا ہے۔ فوجی قیادت اپنا نمائندہ مقرر کرے تو ہم مشروط مذاکرات کریں گے۔‘

پی ٹی آئی سربراہ کے اس بیان پر ردعمل میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے انہیں فوج سے مذاکرات کی بجائے نو مئی 2023 کے واقعات پر فوج سے ’معافی‘ مانگنے کا مشورہ دے ڈالا۔

اس سے قبل منگل کو اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران ’فوج سے مذاکرات‘ کا عندیہ دیا تھا تاہم ان کا کہنا ہے کہ فوج اپنا نمائندہ مقرر کرے، وہ وزیر داخلہ محسن نقوی سے کبھی بات نہیں کریں گے۔

نو مئی 2023 کو عمران خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے، جن کے دوران لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس سمیت دیگر قومی اور نجی املاک کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

ان واقعات میں ملوث افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

نو مئی کے بعد پی ٹی آئی کے کئی رہنما کچھ عرصے کے لیے لاپتہ ہوئے اور واپس آنے کے بعد انہوں نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا۔

دوسری جانب بانی چیئرمین عمران خان مختلف مقدمات کے سلسلے میں قید ہیں۔ کئی مقدمات میں انہیں بری کر دیا گیا ہے تاہم اب بھی ان پر توشہ خانہ سے متعلق مقدمات زیر التوا ہیں۔

ایسی صورت حال میں پارٹی کے اندر دھڑے بندی کی خبریں عام ہیں اور رہنماؤں کے آپس میں بیانات میں تضاد واضح ہے جبکہ کئی رہنما بھی ایک دوسرے کے خلاف بھی بیانات دے چکے ہیں۔

اب عمران خان کی جانب سے گذشتہ روز فوج سے مذاکرات کا عندیہ دیے جانے پر ایک نیا پنڈورا بکس کھل گیا ہے اور حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے انہیں فوج سے مذاکرات کی بجائے نو مئی 2023 کے واقعات پر فوج سے ’معافی‘ مانگنے اور سیاسی جماعتوں سے بات کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

مسلم لیگ ن کی رہنما اور سینیئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کو ’خود ساختہ انقلابی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ فوج سے کس بات کے لیے  مذاکرات چاہتے ہیں؟‘

میڈیا سے گفتگو میں مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ ’شہدا کے مجسمے توڑ کر، جی ایچ کیو اور ایئر بیس پر حملے کر کے، کور کمانڈر کا گھر جلا کر فوج سے معافی مانگیں، مذاکرات نہیں۔‘

دوسری جانب لیگی رہنما اور پنجاب کے وزیر تعلیم سکندر حیات کہتے ہیں کہ عمران خان اگر سنجیدہ ہیں تو انہیں سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنے چاہییں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’جو کل تک مذاکرات سے انکاری تھا آج نمائندہ مقرر کرنے کی تجویز دے رہا ہے۔ جلد تحریک انصاف کی طرف سے بانی پی ٹی آئی کے مذاکرات کے بارے میں بیان کی تردید آنے والی ہے۔ اپنی روایت کے مطابق بانی تحریک انصاف خود نمائندہ مقرر کرنے والے بیان سے مکرتے دکھائی دیں گے۔‘

رانا سکندر حیات کے مطابق: ’جیل میں رہ کر تو عقل ٹھکانے آجاتی ہے، مگر خان صاحب میں تبدیلی نہیں آئی۔ پی ٹی آئی ون مین شو کی قائل ہے اور جمہوریت میں ون مین شو نہیں چلتا۔‘

اس حوالے سے تحریک انصاف پنجاب کے سیکریٹری اطلاعات شوکت بسرا کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں سیاسی جماعتوں سے مذاکرات بے معنی ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’سب کو معلوم ہے کہ انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی ٹوٹل 36 نشستیں ہیں، لیکن فوج نے انہیں جتوایا اور ہماری نشستیں انہیں دے دی گئیں۔ اس کے بعد حکومت بھی فوج نے بنوائی ہے۔ جب سارے عمل میں فوجی حکام کا ہی کردار ہے تو ہم سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کس لیے کریں؟‘

شوکت بسرا کے مطابق: ’اس ملک میں ججز بھی خود انصاف مانگ رہے ہیں۔ ہمارے خلاف تمام کارروائیاں عسکری حکام کی مداخلت پر ہو رہی ہیں، لہذا جب تک ہمارے تین مطالبات تسلیم نہیں ہوں گے، بات آگے نہیں بڑھے گی۔

’ہمارا پہلا مطالبہ ہے کہ عمران خان سمیت تمام رہنماؤں اور کارکن، جو سیاسی قیدی ہیں، ان کے خلاف مقدمات واپس لیے جائیں۔ دوسرا مطالبہ ہے کہ غیر جانبدار الیکشن کمیشن بنایا جائے اور تیسرا مطالبہ دوبارہ شفاف الیکشن کروانے کا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ان مطالبات میں سے کون سا مطالبہ ہے جو حکومتی اتحاد پورا کر سکتی ہے؟ لہذا عمران خان نے سوچ سمجھ کر فوج سے مذاکرات کی پیش کش کی ہے۔ ہمیں کسی سیاسی نمائندے پر اعتماد نہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی جیسا بااختیار نمائندہ مقرر کیا جائے، جو ہمارے مطالبات پورے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

تاہم تجزیہ کار سلمان غنی کے نزدیک عمران خان کا مطالبہ ’غیر سیاسی، غیر سنجیدہ اور نو مئی کے کیسوں سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش‘ ہے اور عمران خان کو معلوم ہے کہ حالیہ دنوں میں پارٹی کے گرفتار ہونے والے رہنماؤں سے کافی ثبوت ملے ہیں، جو بانی پی ٹی آئی اور پارٹی کے لیے مزید مسائل بڑھا سکتے ہیں۔

سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’پی ٹی آئی کی جانب سے نو مئی کے واقعات اور عمران خان کی فوجی قیادت کے خلاف بیان بازی کے بعد ایسا ممکن نہیں لگتا کہ ان سے کوئی مذاکرات کرے گا۔ فوج کے ترجمان بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ عمران خان یا پی ٹی آئی کی فوج سے مذاکرات کی بات بلاجواز ہے۔ انہوں نے بات کرنی ہے تو سیاسی جماعتوں سے کریں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’مجھے نہیں لگتا کہ فوج کی جانب سے عمران خان سے گفتگو کے لیے کوئی پیش رفت ہوگی۔ کیا فوج جی ایچ کیو سمیت شہدا کے مجسموں پر حملوں کو بھول جائے گی؟ کیا عسکری قیادت پر الزامات اور بیرون ملک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کو پس پشت ڈالا جاسکتا ہے؟‘

بقول سلمان غنی: ’وزیراعظم شہباز شریف ایوان میں پیش کش کر چکے ہیں اور ان دنوں بھی وفاقی وزیر اپنی پریس کانفرنسوں کے ذریعے کئی بار مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں، لیکن تحریک انصاف جس فوج سے بات کرنا چاہتی ہے ان کے خلاف تو تحریک چلائی گئی تھی۔ اب کس طرح ان سے گفتگو کرنے کی پیش کش کی جارہی ہے۔‘

اہم ترین

Scroll to Top