جنگوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بعض اوقات دونوں فریق آل آؤٹ وار سے بچنا چاہتے ہیں لیکن پھر بھی حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ بڑی جنگ کی دلدل میں دھنسے پر مجبور ہو جاتے ہیں، مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ اس تلخ حقیقت کی مثال بنتی جا رہی ہے، کم و بیش ایسا ہی خدشہ اب پی ٹی آئی و بانی پی ٹی آئی کے ساتھ جاری حکومت و اسٹیبلشمنٹ کی محدود جنگ کے حوالے سے پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے، نہ تو عمران خان اپنی پارٹی اور اپنی سیاست کو آل آؤٹ وار کی بھٹی میں جھونکنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت یہ خطرہ مول لینا چاہتی ہے کہ ریاستی طاقت کے استعمال کی انتہا کر کے پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کو بالکل ہی "نیوٹرلائز” کرنے کے چکر میں پڑ جائے، اس کے باوجود دونوں کیوں ایک بڑی جنگ میں الجھ سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب مشرق وسطیٰ میں جاری تنازع کے واقعات اور زمینی حقائق سے لگانا کچھ مشکل نہیں کہ جہاں دونوں فریق بڑی جنگ سے بچنے کیلئے خود پر سخت پابندیاں عائد کیئے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود آہستہ آہستہ بڑی جنگ کی دلدل کی طرف کھسکتے جا رہے ہیں اور کسی دن دھڑام سے اس دلدل کے اندر لڑھک جائیں گے۔
اسرائیل اور امریکہ کو پورا یقین ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کو حماس نے اسرائیل پر جو بڑا حملہ کیا ایران اور روس اس میں پوری طرح ملوث ہیں لیکن وہ اپنے اس موقف کا اظہار نہیں کرتے، کیونکہ دونوں نے پالیسی یہ بنائی ہوئی ہے کہ اس جنگ کو مرحلہ وار لڑا جائے گا اور پہلے مرحلے میں غزہ اور حماس کو ملیامیٹ کیا جائے گا، یہی وہ وجہ ہے کہ یمن کے حوثی باغیوں اور جنوبی لبنان کی حزب اللہ کے حملوں کے باوجود امریکہ اور اسرائیل نے دونوں کو بہت بڑے پیمانے پر جواب نہیں دیا۔
ایران نے اسرائیل کیخلاف جنگ میں "تھاوزنڈ کٹ” والی پالیسی اپنا رکھی ہے یعنی ایک طویل اور تھکا دینے والی مسلسل لیکن محدود جنگ کے ذریعے دشمن کو ہزار زخم لگا کر آہستہ آہستہ مارنا، 7 اکتوبر 2023ء کو حماس نے اسرائیل پر جو بڑا حملہ کیا وہ اس ہزار زخم والی پالیسی کیخلاف تھا لیکن چونکہ ایران اور روس پر مشتمل اسٹریٹجک بلاک یوکرین جنگ کی وجہ سے سخت دباؤ میں تھا اس لیئے امریکہ اور نیٹو ممالک کو ایک نئے محاذ جنگ میں الجھانا ایک ٹیکٹیکل مجبوری بن گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ حماس کے 7 اکتوبر والے آپریشن طوفان الاقصیٰ والا رسک لیا گیا۔
اسرائیل کے شدید رد عمل نے روس اور ایران کے اندازے غلط ثابت کر دیئے اور اس ایڈونچر کی بیچارے غزہ کے عوام اور حماس نے بہت ہی زیادہ بھاری قیمت چکائی، چونکہ ایران ہر حال میں آل آؤٹ وار سے بچنا چاہتا ہے اس لیئے اس نے حماس اور غزہ کی اس طرح مدد نہیں کی جس کی حماس کو توقع تھی، یا اس سے وعدہ کیا گیا تھا۔
اب اسرائیل کی باری ہے، وہ سب سے باری باری نمٹنے کی پالیسی بنائے ہوئے ہے، یمن اور جنوبی لبنان پر فضائی حملے تاحال محدود ٹارگٹڈ آپریشنز تک محدود ہیں، ایران کے بارے میں چونکہ اسرائیل اور امریکہ کو یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ ایرانی جنگی منصوبے میں آل آؤٹ وار کا آپشن موجود ہی نہیں، اس لیئے وہ اس کا پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور ایسی ایسی جارحانہ کارروائی کر گزرتے ہیں کہ جس کا عام حالات میں دنیا کا کوئی ملک رسک نہیں لیتا، بیروت میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کر کے ایرانی جرنیلوں کا قتل، ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنا کر ایرانی صدر اور وزیر خارجہ کی ہلاکت اور اب تہران میں میزائل داغ کر حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کا قتل ایسی ننگی جارحیت ہے جو کھلم کھلا اعلان جنگ کے مترادف ہے لیکن چونکہ اسرائیل اور امریکہ سمجھتے ہیں کہ ایران ان کے ساتھ آل آؤٹ وار لڑنے کی پوزیشن میں نہیں اس لیئے وہ یہ رسکی شارٹس کھیل رہے ہیں۔
ہوتا یوں ہے کہ جس طرح 7 اکتوبر کے حماس کے طوفان الاقصیٰ کا فیصلہ کرتے وقت روس، ایران اور حماس نے اسرائیل کے ردعمل کے بارے میں سوچتے ہوئے اندازے کی غلطی کی، اسی طرح ایران کیخلاف کھلے اعلان جنگ والی کارروائیوں کا فیصلہ کرتے ہوئے اسرائیل بھی اندازے کی غلطی کر سکتا ہے۔
بیروت میں اپنے جرنیلوں کی ہلاکت کے جواب میں میزائلوں اور ڈرونز کے بڑے حملے کا ڈرامہ کر کے ایران کی انقلابی حکومت نے اپنی عزت بچانے کی کوشش کی، اپنے صدر اور وزیر خارجہ کے ہیلی کاپٹر کو تباہ کرنے کے واقعے کو حادثہ قرار دے کر اسرائیل کو سخت جواب دینے سے بچنے کا راستہ اپنایا، لیکن اب تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کا میزائل حملے سے قتل ایرانیوں کے گلے پڑ گیا ہے، اب اس حملے کا جواب دیتے ہوئے اندازے کی غلطی ہو سکتی ہے کہ جس کے نتیجے میں پھر بڑی جنگ چھڑ جائے، اگر ایران ایک بار پھر چند میزائل داغ کر کوئی ڈرامہ کر کے عزت بچانے کی کوشش کرتا ہے تو اسرائیل باز آنے والا نہیں، وہ اگلا میزائل حملہ رہبر انقلاب آیت اللہ علی خامنہ ای پر بھی کر سکتا ہے یا ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے، پھر ایران کیا کرے گا؟ اسرائیل کو منہ توڑ جواب نہ دینے کی صورت میں نیتن یاہو کا حوصلہ بڑھتا جائے گا، ہانیہ کے قتل نے ایرانی قیادت پر اب یہ بات واضح کر دی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ایک بڑی جنگ لڑے بغیر اب اس تنازع سے جان چھوٹنے والی نہیں، اس لیئے یہ خدشہ موجود ہے کہ اس بار ایرانی قیادت جواب دینے سے پہلے اپنے اسٹریٹجک اتحادی روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے مشورہ کرے، اور پیوٹن کو تو مدت سے اس وقت کا انتظار ہے، وہ کوئی ایسا مشورہ بھی دے سکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر آگ بھڑک اٹھے، اسماعیل ہانیہ کے قتل کا جواب دیتے ہوئے ایران کا ردعمل اگر کچھ خوفناک قسم کا ہوا تو پھر اسرائیل اور امریکہ بھی اسے ایران پر بڑے حملے کا جواز بنا سکتے ہیں۔
پاکستان میں جاری سیاسی لڑائی بھی کچھ اسی قسم کے حالات سے دوچار ہے، 9 مئی واقعات کے بعد شروع ہونے والے سخت آپریشن کے بعد تحریک انصاف حکومت و اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بڑے تصادم سے بچنا چاہتی ہے، لیکن ساتھ ہی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ڈائیلاگ اور 9 مئی کے حوالے سے اپنے رویئے میں کوئی لچک پیدا کرنے پر تیار نہیں، دوسری طرف پی ڈی ایم سرکار اور مقتدر قوتوں کی پالیسی میں بھی کسی لچک کے کوئی آثار نہیں، اس وجہ سے ٹکراؤ کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں، نگران حکومت نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز کے اندر الیکشن کروانے کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا تھا، کچھ ایسی ہی پالیسی مخصوص نشستوں والے فیصلے پر دکھائی دے رہی ہے اور اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کو فوجی عدالتوں کی تحویل میں دے کر غداری اور آرٹیکل 6 کے کیسز میں سزا دی جا سکتی ہے، جو سزائے موت تک ہو سکتی ہے، فریقین اپنی اپنی جگہ پر ڈٹے ہوئے ہیں کسی ایک طرف سے دوسرے کے ردعمل کے بارے میں اندازے کی غلطی آل آؤٹ وار کی طرف بھی لے جا سکتی ہے، خدا خیر کرے۔