Nigah

9 مئی کو حساس فوجی مقامات کی فہرستیں اور لوکیشنز پی ٹی آئی کو کس نے فراہم کیں؟ کامران شاہد کے ہوشربا انکشافات 

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp

9 مئی واقعات میں پی ٹی آئی کے فسادیوں کو حساس مقامات اور فوجی تنصیبات کی فہرستیں اور لوکیشنز کس نے فراہم کیں؟ فیض حمید سے جاری تفتیش میں اس حوالے سے ہوشربا انکشافات ہوئے ہیں، دنیا نیوز کے ٹاک شو میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان سینئر اینکر پرسن کامران شاہد نے کہا ہے کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور اب ان پر کیس سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ رؤف حسن اور بھارتی صحافی کے رابطوں کے انکشافات پی ٹی آئی کی جانب سے منظم پاکستان مخالف مہم کے حکومتی الزامات کی توثیق کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر عطاء تارڑ نے آج اس معاملے پر تبصرہ کیا کہ کس طرح رؤف حسن یوکرین کی جنگ پر پاکستان کا موقف اور بھارت کے بارے میں آرمی چیف کے موقف جیسے حساس معاملات پر بھارتی صحافی سے بات کر رہے تھے۔

کامران شاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ذرائع کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل فیض سے تفتیش میں کچھ سنگین انکشافات اور اہم سوالات سامنے آئے ہیں۔ 3 نومبر کو جب عمران خان پر حملہ ہوا تو وہاں کوئی بڑے پیمانے پر احتجاج یا فوجی تنصیبات پر حملے نہیں ہوئے لیکن 9 مئی کو جب عمران خان کو صرف گرفتار کیا گیا تو ملک بھر میں پرتشدد ہجوم نے 200 سے زیادہ حساس تنصیبات پر حملہ کیا۔ 9 مئی کو جن فوجی تنصیبات پر حملہ کیا گیا ان میں کور کمانڈر ہاؤس، لاہور میں ایم آئی آفس، فیصل آباد میں آئی ایس آئی کا دفتر شامل ہیں۔ آرمی کا جو ملٹری انسٹیٹیوٹ ہے، جو گوجرانولہ میں لاہوری گیٹ کے اندر حساس اداروں کا آفس ہے، مردان میں پنجاب رجمنٹل سنٹر ہے انہیں بھی نشانہ بنایا گیا، پاکستان کا کوئی عام آدمی یا پی ٹی آئی کارکن ان حساس مقامات کے بارے میں نہیں جانتا۔ خود مجھے بھی یہ نہیں معلوم کہ فیصل آباد میں آئی ایس آئی کا دفتر کہاں ہے۔

کامران شاہد کا کہنا ہے کہ انہیں ذرائع نے بتایا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ ہونے والی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ اس نے 9 مئی کو توڑ پھوڑ کا منصوبہ بنایا تھا اور حساس مقامات کی فہرستیں اور لوکیشنز پی ٹی آئی کے ساتھ شیئر کی تھیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ 3 نومبر کو لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ابھی ریٹائرڈ نہیں ہوئے تھے، اس لیئے عمران خان پر حملے کے وقت ویسا ردعمل نہیں ہوا،اور بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ کی کوئی تیاریاں نہیں تھیں، اس لیے اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ فیض حمید 10 دسمبر کو ریٹائر ہو گئے تھے، لیکن 3 نومبر سے اور خاص طور پر لیفٹیننٹ جنرل فیض کی ریٹائرمنٹ کے بعد، پی ٹی آئی کی طرف سے فوج مخالف بیانیہ جس میں حاضر سروس جرنیلوں کا نام لیا گیا اور انہیں بدنام کیا گیا، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا منصوبہ تھا۔ مزید یہ کہ حکومت کا خیال ہے کہ بشریٰ بی بی کے اصل موکل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ہی تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ذریعے وہ عمران خان کا اعتماد حاصل کرنے اور انہیں یقین دلانے کے لیے پیشگی معلومات اور خبریں دیتی تھیں۔ کامران شاہد کا کہنا ہے کہ یہ جو لنک اسٹیبلش ہو رہے ہیں کہ جنرل فیض، رؤف حسن، ہندوستان اور فیض حمید فوجی تنصیبات کی فہرستیں، پی ٹی آئی، یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے اور جنرل فیض کے ساتھ ساتھ کئی سابق و حاضر سروس فوجی، جج، سیاستدان اور انتظامیہ کے لوگ ملوث ہوتے نظر آ رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کس پر کب ہاتھ ڈالا جاتا ہے۔

اہم ترین

Scroll to Top