Nigah

فیض حمید گروپ کا سندھ نیٹ ورک بھی پکڑا گیا، 100 بڑے کاروباری و سیاسی گھرانوں سے اربوں روپے کی بھتہ گردی کیسے کی گئی؟ ہوشربا کہانیاں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp

مثل مشہور ہے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، آخر اک دن اپنے بکروں سمیت چھری کے نیچے آئے گی، کم و بیش یہی معاملہ ہوا ہے، آئی ایس آئی کے متبادل اپنا پرائیویٹ نیٹ ورک بنانے والے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے ساتھ اور تازہ ترین خبر یہ آئی ہے کہ فیض حمید گروپ کا سندھ نیٹ ورک بھی پکڑا گیا ہے، چھ سات برسوں کے دوران اس نیٹ ورک میں شامل افسران اور پرائیویٹ مافیاز نے ملی بھگت سے سندھ کے بڑے سیاستدانوں، صنعتکاروں اور کاروباری شخصیات سے اربوں روپے کی لوٹ مار کیسے کی؟ اس حوالے سے ہوشربا کہانیاں سامنے آ گئی ہیں، ابتدائی رپورٹس کے مطابق فیض حمید سندھ نیٹ ورک میں آئی ایس آئی، ایف آئی اے اور نیب سمیت مختلف سرکاری اداروں کے افسران بھی شامل تھے اور اندرون سندھ و کراچی کے بااثر پتھاریدار اور وڈیرے بھی اس نیٹ ورک کا حصہ تھے اور یہ سب شکاری مل کر سندھ کے بڑے سیاسی اور کاروباری گھرانوں سے کروڑوں روپے کی بھتہ گردی کرتے رہے اور اس دوران کیش پیمنٹ پر مجموعی طور پر اربوں روپے لوٹے گئے، اور نوٹوں کی بوریاں اور بیگ بھر بھر کر سندھ کے بہت سے سیاست دانوں اور کاروباری گھرانوں نے فیض حمید نیٹ ورک کو پیش کیئے اور انتقامی کارروائیوں سے اپنی جان چھڑائی۔

یہ ہوشربا انکشافات یوٹیوب چینل اے کیو ایس کے "سپر سکس” سوشل میڈیا ٹاک شو میں کیئے گئے ہیں جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو کئی عشروں سے کور کرنے والے جنگ اور جیو نیوز کے سینئر رپورٹر عبدالقیوم صدیقی، ڈیفینس اور پارلیمنٹ کی بیٹ کرنے والے سینئر رپورٹر احمد منصور، پولیٹیکل بیٹ کے سینئر صحافی حماد حسن، اسلام آباد میں سندھ ٹی وی کے بیورو چیف شاکر سولنگی جو سندھ کے امور پر اتھارٹی مانے جاتے ہیں اور سپریم کورٹ کے سینئر جرنلسٹ طیب بلوچ شریک تھے۔

وفاقی دارالحکومت کے انتہائی باخبر صحافیوں کے اس سپر سکس سوشل میڈیا ٹاک شو میں اکثر انتہائی سنسنی خیز اسٹوریاں بریک کی جاتی ہیں جو بعد میں پورے سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر چھا جاتی ہیں، فیض حمید سندھ نیٹ ورک کے حوالے سے انکشافات بھی اسی طرح کا ایک طلسم ہوشربا ہے، ٹاک شو میں انتہائی باوثوق ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے ایک ریٹائرڈ آفیسر کرنل بہرام اس نیٹ ورک کے کراچی میں فرنٹ مین تھے، سب سے پہلے وہ ریڈار پر آئے اور پھر اس کے بعد کڑیوں سے کڑیاں ملتی گئیں اور 2 پرائیویٹ فرنٹ مینوں کے حوالے سے بھی کئی متاثرین سامنے آگئے اور بتایا کہ کس طرح انہوں نے نیب سے جان چھڑوانے، ای سی ایل سے نام نکلوانے اور دیگر انتقامی کارروائیوں سے بچنے کیلئے کروڑوں روپے کا بھتہ دے کر اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان خلاصی کروائی، یہ بھی انکشاف سامنے آیا ہے کہ اس نیٹ ورک میں شامل لوگ اتنے چالاک اور عیار تھے کہ اپنی اس لوٹ مار کے ریکارڈ پر آنے سے بچنے کیلئے تمام پیمنٹس کیش کی صورت میں وصول کرتے تھے، تاہم ان ادائیگیوں کے گواہوں اور اس عرصے کے دوران ہونے والے ٹیلی فون اور واٹس ایپ کالز کے ڈیٹا اور لوکیشنز کی بنیاد پر تمام دستیاب ثبوت بھی جمع کیئے جا رہے ہیں۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس بھتہ گردی کے حوالے سے کچھ آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگز بھی سامنے آ سکتی ہیں، ذرائع کا دعویٰ ہے کہ فیض حمید نیٹ ورک نے یہ ساری بھتہ گردی "پراجیکٹ عمران خان” کے پولیٹیکل ایجنڈے پر عملدرآمد کی آڑ میں کی جس کی وجہ سے زیادہ تر متاثرہ سیاست دانوں اور کاروباری و صنعت کار گھرانوں کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے بھی بتایا جاتا ہے، فیض حمید سندھ نیٹ ورک کتنا خوفناک اور بے رحم تھا اس کا اندازہ اس کے متاثرین کے نام سامنے آنے پر لگایا جا سکتا ہے کہ جو لوگ خود انتہائی طاقتور اور خوف کی علامت تھے انہیں بھی فیض حمید نیٹ ورک نے قابو کرکے بہت بڑے بڑے بھتے وصول کیئے۔

کراچی کے صبغت اللہ میمن اور اندرون سندھ کے ایاز مہر بھی اس نیٹ ورک کے فرنٹ مین تھے، اور بوریوں اور بیگوں میں بھر بھر کر بھتے وصول کرتے رہے، ابتدائی معلومات کے مطابق اس نیٹ ورک کے متاثرین کی تعداد ایک سو سے بھی تجاوز کر گئی ہے جن میں سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ کراچی، حیدر آباد اور اندرون سندھ کے بڑے بڑے کاروباری لوگ بھی شامل ہیں، ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سندھ کے کئی سابق اور موجودہ صوبائی وزیر اور بیوروکریٹس نے بھی اس نیٹ ورک سے جان چھڑانے کیلئے کروڑوں روپے کی ادائیگیاں کیں، جن میں سابق صوبائی وزیر آبپاشی سہیل انور سیال اور صوبائی وزیر ہاؤسنگ اینڈ ورکس حاجی علی حسن زرداری بھی شامل ہیں، حاجی علی حسن زرداری دھرتی ٹی وی اور سندھ کے ایک اخبار کے مالک بھی ہیں، ایک صوبائی وزیر نے اس نیٹ ورک کیلئے 50 کروڑ روپے بوریوں میں بھر کر ایاز مہر کو دیئے اور اپنی اور اپنے خاندان کی جان چھڑوائی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے پر فیض حمید کا سندھ نیٹ ورک ہوا میں تحلیل ہو گیا، بعد میں نگران حکومت کے دور میں معاملہ آصف علی زرداری تک پہنچا تو ایاز مہر کی طلبی ہوئی اور اس نے تسلیم کیا کہ فیض حمید نیٹ ورک کے فرنٹ مین کی حیثیت سے اس نے 50 کروڑ روپے وصول کیئے تھے اور مخصوص حصہ اوپر پہنچایا تھا، ایاز مہر نے 50 کروڑ روپے میں سے اپنے لیئے رکھا گیا کروڑوں روپے کا حصہ واپس کر کے اور معافی مانگ کر اپنی جان چھڑوائی اور جو رقم اوپر پہنچائی گئی تھی وہ البتہ "ہضم” ہو گئی۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ایاز مہر وعدہ معاف گواہ بھی بن گیا ہے اور اس نے بھتہ گردی کی دیگر بہت سی وارداتوں میں شامل ہونے کا اعتراف بھی کر لیا ہے اور 50 کروڑ روپے بھتہ گردی کے حوالے سے تحریری طور پر اقبالی بیان لکھ کر بھی دے رکھا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب اور ایف آئی اے کے کئی افسران بھی اس بھتہ گردی میں فیض حمید نیٹ ورک کا حصہ تھے، تاہم ایک ایماندار نیب آفیسر نے اس لوٹ مار کا حصہ بننے سے صاف انکار کر دیا جسے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا کر تبادلہ کروا دیا گیا، یہ ایماندار نیب آفیسر آج کل نیب لاہور آفس میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں اور بہت سی وارداتوں کے حوالے سے ان کے پاس بھی قیمتی معلومات ہیں۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ 100 سے زیادہ کاروباری، صنعت کار اور سیاسی گھرانوں کو لوٹنے والی اس کہانی کے متاثرین اور سہولت کاروں میں منظور کاکا اور عقیل کریم ڈھیڈی کے نام بھی آ رہے ہیں، ذرائع کا دعویٰ ہے کہ فیض حمید سندھ نیٹ ورک کی تمام کڑیاں کھولنے پر مامور طاقتور لوگ پچھلے کچھ ماہ سے عقیل کریم ڈھیڈی کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں، سوشل میڈیا ٹاک شو میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ اگلے ڈیڑھ دو ماہ کے دوران ملک میں بہت بڑی بڑی گرفتاریاں بھی ہونے جا رہی ہیں اور کچھ بڑے استعفے بھی آنے والے ہیں۔


یوٹیوب چینل AQSLive پر "سوشل میڈیا شو” کا مکمل پروگرام دیکھیں

اہم ترین

Scroll to Top