حکومت کی 2 اسمارٹ مووز نے سسٹم کو ہائی جیک کرنے کیلئے جاری "عمران منصور گٹھ جوڑ” کو بےاثر کر دیا ہے، اس حوالے سے پہلی اسمارٹ موو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں کی گئی سابقہ ترمیم کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی ٹیکنیکل واردات کا ٹیکنیکل توڑ ہے، چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کورٹ درخواستوں کی سماعت اور بنچوں کی تشکیل سے متعلق فیصلے میں بےبس کر دینے کی گھناؤنی سازش بانی پی ٹی آئی نے سپریم کے سینئر جج منصور علی شاہ سے مل کر رچا رکھی ہے، اس کے توڑ کیلئے وفاقی کابینہ نے آج سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024ء منظور کر لیا ہے، جس کی صدر پاکستان کی طرف سے بھی بلا تاخیر منظوری دیئے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی طرف سے بھی ایک اور اسمارٹ موو اگلے 72 گھنٹوں میں متوقع ہے، جس کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے مخصوص نشستیں انہی سیاسی جماعتوں کو دوبارہ الاٹ کر دی جائیں گی جن کا موثر بہ ماضی الیکشن ایکٹ کے تحت قانونی حق بنتا ہے، اور پھر اسپیکر قومی اسمبلی الیکشن کمیشن کے فیصلے پر بلا تاخیر عملدرآمد بھی کر دیں گے جس سے قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کو واضح دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی۔
قانونی و آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے خلاف اگر پی ٹی آئی سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی تو وہاں بھی صورتحال میں تبدیلی آ چکی ہو گی اور منصور منیب اتحاد غیر مؤثر ہو جانے کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے تحت میرٹ پر بنچ کی تشکیل کر سکیں گے، یوں پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ سے اپنی مرضی کا انصاف لینے کی سہولت میسر نہیں رہے گی، ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے اپنی اس ڈبل اسمارٹ مووز کے ذریعے اپوزیشن کو ٹیکنیکل ناک آؤٹ کرنے کی تیاری مکمل کر لی ہے اس لیئے اب 26ویں آئینی ترمیم کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ باقی نہیں بچی اور بظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں 68 برس تک کی توسیع اور ہائیکورٹس کے ججز کی تقرری و تبادلے کے نئے طریقہ کار والی آئینی ترمیم اسی ماہ ستمبر میں پارلیمنٹ سے منظور ہو جائے گی، اور اگر پی ٹی آئی نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024ء کی وجہ سے مرضی کا بنچ بنوانے کی سہولت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کا سپریم کورٹ کے ذریعے آئینی ترمیم کا راستہ روکنے کا خواب بھی چکنا چور ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس منظور کرلیا ہے، اور اس کی صدر سے جلد منظوری کا بھی امکان ہے۔
آرڈیننس سے چیف جسٹس کا سپریم کورٹ کے مقدمات مقرر کرنے اور بنچز کی تشکیل میں اختیار بڑھ جائے گا، وزارت قانون نے گزشتہ روز آرڈیننس وزیراعظم اور کابینہ کو بھجوایا تھا۔ آرڈیننس کے مطابق چیف جسٹس، سپریم کورٹ کا سینئر جج اور چیف جسٹس کا مقرر کردہ جج اب کیس مقرر کریگا اور بنچز تشکیل دے گا، اس سے قبل چیف جسٹس اور 2 سینئر ترین ججز کا 3 رکنی بنچ مقدمات مقرر کرتا تھا اور بنچ تشکیل دیتا تھا۔
آرڈیننس کے مطابق بنچ عوامی اہمیت اور بنیادی انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے مقدمات کو دیکھے گا، ہر کیس کو اس کی باری پر سنا جائے گا ورنہ وجہ بتائی جائے گی، ہر کیس اور اپیل کو ریکارڈ کیا جائے گا اور ٹرانسکرپٹ تیار کیا جائے گا، تمام ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ عوام کیلئے دستیاب ہوں گے۔
دوسری طرف قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر اسپیکر قومی اسمبلی کے بعد اب اسپیکر پنجاب اسمبلی اور مسلم لیگ ن نے بھی الیکشن کمیشن سے رجوع کر لیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن قرار دے کہ جس سیاسی جماعت نے مخصوص سیٹوں کی فہرست نہیں دی، وہ مخصوص نشستوں کی اہل نہیں۔
ن لیگ نے موقف اپنایا کہ پارلیمنٹ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر چکی ہے، ترمیم کا اطلاق ماضی سے موثر ہے، اس لیئے پارٹی وابستگی کا سرٹیفکیٹ جمع نہ کروانے والے ارکان کو آزاد ارکان قرار دیا جائے۔
دوسری جانب مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی جانب سے اجلاس بلا کر سپریم کورٹ کے آرڈر اور پارلیمنٹ کی قانون سازی کا جائزہ لیا گیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے اجلاس میں ممبر الیکشن کمیشن، سیکرٹری الیکشن کمیشن اور ممبر لا ونگ شریک ہوئے۔
اجلاس میں الیکشن کمیشن کو آئینی اور قانونی ماہرین کی جانب سے مخصوص نشستوں کے معاملے پر بریفنگ دی گئی۔
خیال رہے کہ مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کیلئے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھی الیکشن ایکٹ کے تحت چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ دیا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا ہے کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری قائم رکھتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں، جس رکن پارلیمنٹ نے کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ پارٹی سرٹیفکیٹ نہیں دیا وہ آزاد تصور ہوگا، وہ آزاد ارکان جو ایک سیاسی جماعت کا حصہ بن گئے انہیں پارٹی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔