تحریک انصاف نے اپنے سینیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی میں جنم لینے والی بغاوت کچلنے کیلئے حکومتی مشینری کا استعمال بڑھا دیا، بانی پی ٹی آئی کے ریاست سے تصادم کے بیانیہ سے اِتفاق نہ کرتے ہوئے مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے سے روکنے کیلئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی مدد سے اپنے ہی 7 ارکان پارلیمنٹ کو اغوا کر کے خیبرپختونخوا کے دور دراز علاقوں میں خفیہ مقامات پر قید کر رکھا ہے، اس حوالے سے سامنے آنے والی تازہ ترین معلومات میں سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں، سوشل میڈیا پر بھی کئی سینیئر صحافی اس حوالے سے سنسنی خیز کہانیاں شیئر کر رہے ہیں۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم پر ووٹنگ کے ڈر سے تحریک انصاف نے اپنے ہی جن ممبران پارلیمنٹ کو اغوا کر کے حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے ان میں سندھ سے سینیٹر سیف اللہ ابڑو، سرگودھا سے رکن قومی اسمبلی محمد شفقت حیات خان، ملتان سے منتخب ایم این اے زین قریشی، قصور سے منتخب رکن قومی اسمبلی عظیم الدین زاہد لکھوی، منڈی بہاؤالدین سے منتخب ایم این اےحاجی امتیاز، رحیم یارخان سے منتخب رکن قومی اسمبلی جاوید اقبال وڑائچ اور تونسہ شریف سے منتخب ایم این اے خواجہ شیراز شامل ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ارکان پارلیمنٹ پی ٹی آئی قیادت سے اختلاف کرنے والے دیگر ہم خیال ارکان پارلیمنٹ کا خفیہ مشاورتی اجلاس منعقد کرنےکی تیاری کر رہے تھے کہ معاملہ پی ٹی آئی قیادت کے نوٹس میں آگیا اور اس نے مختلف جرائم پیشہ گینگز اور خیبرپختونخوا پولیس کی ملی بھگت سے انہیں اجلاس کے بہانے بلا کر ان کی مرضی کے خلاف "محفوظ مقامات” پر جانے پر مجبور کیا، اور خیبرپختونخوا کے دور دراز علاقوں میں لے جا کر حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے۔
ذرائع کے مطابق ان ارکان پارلیمنٹ کو اپنے گھر والوں سے بھی آزادانہ رابطے کی اجازت نہیں جس کی وجہ سے ان کی فیملیز پریشان ہیں، سوشل میڈیا پر کچھ لوگ تو یہ دعویٰ بھی کر رہے کہ کچھ ارکان پارلیمنٹ کو غیر قانونی طور پر سرحد پار کر کے ایک ہمسایہ ملک میں لے جایا جا چکا ہے اور ان کی فیملیز کو یہ تسلی دی جا رہی ہے کہ وہ 26 اکتوبر کے بعد واپس پہنچ جائیں گے۔
خیبرپختونخوا حکومت اور تحریک انصاف کی اس حرکت سے ایک بات عیاں ہو جاتی ہے کہ یا تو اس کا ہر رویہ غیر جمہوری ہے یا اسے اپنے ممبران پارلیمنٹ پر اعتماد نہیں ہے۔