پی ٹی آئی کارکنوں کو پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے "چارے” کے طور پر ڈال کر تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی اور پارٹی عہدیدار پھر غائب ہو گئے ہیں، دوسری طرف جڑواں شہروں راولپنڈی اسلام آباد کی انتظامیہ نے پنجاب اور سندھ سے آنے والے راستوں کی ایک بار پھر ناکہ بندی کا فیصلہ کر لیا ہے، بڑے ناکے اٹک پل اور کٹی پہاڑی پر لگائے جائیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 15 اکتوبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر احتجاج کی کال کے بعد راولپنڈی پولیس نے 7 کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے، جبکہ کل رات بھر مختلف رہنماوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے لیکن قیادت روپوش ہوگئی۔ انتشاری ٹولے کی گرفتاریوں کیلئے آپریشن آج رات بھی جاری رہے گا، پولیس نے گزشتہ رات پی ٹی آئی رہنما راجہ بشارت، سابق ایم پی اے وحید قاسم، عارف عباسی، راشد حفیظ کے گھروں پر چھاپے مارے۔ اس دوران پولیس نے 7 کارکنوں کو حراست میں لے لیا جو 15 اکتوبر کے احتجاج کیلئے بلوائیوں کی رہائش اور کھانے کے انتظامات کر رہے تھے۔
ترجمان پولیس کے مطابق راولپنڈی میں دفعہ 144نافذ ہے، نہ احتجاج یا ریلی کی اجازت ہوگی اور نہ اس کی تیاری برداشت کی جائے گی، شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کی وجہ سے اسلام آباد کے ساتھ ساتھ راولپنڈی میں بھی سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔
پولیس نے پی ٹی آئی کے سابق امیدوار قومی اسمبلی شہریار ریاض کے گھر بھی چھاپہ مارا لیکن شہریار ریاض گھر پر نہ ہونے کے باعث گرفتار نہ ہوسکے۔
دوسری جانب اٹک میں پولیس اور انتظامیہ کے اعلی افسران نے کے پی کے داخلی راستوں کا ہنگامی دورہ کیا ہے۔ اس موقع پر موٹروے ایم ون پر ڈی پی او اٹک نے افسران کوبریفنگ بھی دی۔ جی ٹی روڈ اور دیگر انٹری پوائنٹس کا بھی جائزہ لیا گیا اور اس دوران کٹی پہاڑی حسن ابدال سب سے زیادہ اہم قرار دی گئی۔ علاوہ ازیں موٹروے پرہرو پل کا بھی جائزہ لیا گیا۔
لا اینڈ آرڈر کی صورتحال سے نمٹنے کی پلاننگ کی گئی، ذرائع کے مطابق آج کسی وقت بھی اس پلاننگ پرعملدرآمد کیاجاسکتا ہے اور پنجاب و سندھ سے آنیوالے مسافروں کی چیکنگ کر کے عام مسافروں کے بھیس میں دارالحکومت میں داخل ہونے والوں کو گرفتاری کر کے 3 روز کیلئے گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔