ملک کے سب سے بڑے اور سنجیدہ انگریزی اخبار "ڈان” نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو انتہائی خوفناک ذہنی بیماری "دی ڈینجرس لیڈر ڈس آرڈر” کا شکار قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اپنا ذہنی توازن کھو دینے والی اس نفسیاتی بیماری کی وجہ سے عمران خان اب مستقبل میں دوبارہ وزیراعظم پاکستان کے منصب کیلئے ہمیشہ کیلئے ان فٹ قرار دے دیئے گئے ہیں اس لیئے ان کے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کا چانس باقی نہیں رہا۔
انگریزی اخبار ڈان نے ملک کے معروف لکھاری اور تجزیہ کار ندیم ایف پراچہ کی اس اسٹوری کو "سموکرز کارنر” میں 13 اکتوبر کو شائع کیا اور اس انتہائی فکر انگیز ریسرچ آرٹیکل کو ڈان نیوز اُردو کی ویب سائٹ پر آج 14 اکتوبر کو کالمز کارنر میں شائع کیا ہے، اس انتہائی فکر انگیز تحقیقی تحریر میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے صف اول کے دانشوروں اور ماہرین نفسیات کے حوالے دے کر یہ واضح کیا گیا ہے کہ عمران خان جیسے لوگ اقتدارِ سے علیحدگی کے بعد انتہائی خطرناک کیوں ہو جاتے ہیں، ایسے پاگل پن کے شکار لوگوں کو پہلی بار اقتدار دینا ہی بہت تباہ کن ثابت ہوتا ہے جبکہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد جب یہ اپنے مینٹل ڈس آرڈر کی انتہا کو پہنچ جائیں تو اس کے بعد انہیں اقتدار سونپنا تو مکمل تباہی کو دعوت دینا اور پاگل پن کی انتہا ہے اور اسی لیئے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں نے اب یہ حتمی فیصلہ کر لیا ہے کہ عمران خان فیکٹر سے اسی طرح نمٹا جائے گا جس طرح کسی فتنہ سے نمٹا جانا چاہیئے، اپنی غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے ہم یہ انتہائی فکر انگیز کالم پورے کا پورا اس رپورٹ میں شامل کر رہے ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے عمران خان کو ’فتنہ‘ کہنے کا فیصلہ کرلیا ہے، خان مخالف لوگوں کے نزدیک وہ ضدی، خودپرست، انا پرست شخص ہیں لہذا وہ کسی اہم سیاسی دفتر کو سنبھالنے کے اہل نہیں۔
2018ء میں وزیراعظم بننے سے قبل اور اپنی مدت اقتدار میں عمران خان کے اقدامات اور بیانات کو یا تو ان کے حامیوں کی جانب سے ’شاندار‘ قرار دیا گیا یا پھر ان کی بیان بازی کو مخالفین نے طنز کا نشانہ بنایا۔
2015ء میں عمران خان کے وزیراعظم بننے سے تین سال قبل جوہری سائنس دان اور مصنف پرویز ہود بھائی نے ڈان میں لکھا تھا کہ عمران خان ’خطرناک‘ ہیں جبکہ وہ تو انہیں احمق تک کہنے والے تھے۔ ظاہر ہے پرویز ہود بھائی کو عمران خان کے حامیوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ پرویز ہود بھائی کے کالم کو آج تقریباً ایک دہائی گزرنے کے بعد بھی بہت سے لوگ عمران خان کی ذہنی حالت اور جذباتی کیفیت کے حوالے سے سوالات اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ان کے پختہ سپورٹرز کے نزدیک وہ اب بھی ’اسٹریٹجک ماسٹر‘ ہیں۔
بلاشبہ جیل میں ہونے کے باوجود منظرنامے میں رہنے کے لیے انہوں نے بڑی چالاکی سے خیبر پختونخوا اور وسطی پنجاب کے شہری اور نیم شہری علاقوں میں حاصل ہونے والی حمایت کو استعمال کیا۔ انہوں نے ہوشیاری سے عدالتوں کا استعمال کیا جنہوں نے عمران خان کو سیاست سے حذف کرنے کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے کو ناکام بنایا۔
عمران خان کی جماعت کے سوشل میڈیا پر اب بھی قدم مضبوط ہیں۔ یہ سب بھی ان کے لیے کوئی بڑی کامیابی نہیں لا پائے۔ وسیع منظرنامے میں دیکھا جائے تو وہ گزشتہ سال اپنی گرفتاری کے بعد جس گڑھے میں جاگرے تھے، اپنے اقدامات سے وہ اس گڑھے کو مزید گہرا کررہے ہیں۔
گزشتہ چند سالوں میں عمران خان کے اقدامات، دباؤ، پاگل پن اور اثرورسوخ کھونے کے خوف کے گرد گھومتے ہیں۔ آج وہ جن مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں وہ ان کے اپنے فیصلوں کی وجہ سے ہے جس نے بہ ظاہر ان کے لیے واپسی کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے۔
اپنے مخالفین کو پریشان کرنے کے لیے سازشیں کرنا سیاسی حکمت عملی نہیں بالخصوص ایک ایسے منظر نامے میں جو انتشار کا شکار ہے کہ جہاں سوشل میڈیا کی دنیا سے باہر انہیں اور ان کی پارٹی کو سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ سونے پر سہاگا یہ کہ موجودہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ مصر ہے کہ وہ انہیں تنقید کرنے کا سبق سکھا کر رہے گی۔
اپنے سوشل میڈیا نیٹ ورکس کی مدد سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر حملہ کرنے کی ان کی ’حکمت عملی‘ کہ وہ تنگ آکر ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے آمادہ ہوجائے، خام خیالی ہے۔ کیا وہ فریب کی دنیا میں رہتے ہیں؟ یوٹوپیائی؟ یا پھر ان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں؟ عمران خان احمق نہیں ہیں۔ لیکن بہت سے عصر حاضر کے پاپولسٹ رہنماؤں کی طرح وہ بھی اپنی ’مقبولیت‘ اور پُرکشش شخصیت کو بالائے طاق رکھ کر سیاسی حربے تلاش کرتے ہیں۔
لہٰذا سیاسی مخالفین سے بامعنی مذاکرات کے لیے بہتر حکمت عملی اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے کے بجائے انہوں نے اکثر ایسے راستے اپنائے ہیں جن کے نتائج زیادہ حقیقت پسندانہ نہیں۔
مثال کے طور پر زیادہ تر سیاسی مبصرین اصرار کرتے ہیں کہ عمران خان کو لگتا تھا کہ گزشتہ سال ان کی جماعت کی جانب سے کیے جانے والے ہنگاموں اور فوجی تنصیبات پر حملے سے موجودہ آرمی چیف کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑے گی اور عمران خان کی حمایت کرنے والے فوجی جرنیل انہیں جیل سے نکال لیں گے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
گزشتہ ہفتے ملک کے دارالحکومت پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بھی اسی طرح خام خیالی پر مبنی تھا۔ عمران خان کا خیال تھا کہ اس طرح شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس منسوخ ہونے کا امکان پیدا ہوگا جو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کرے گا کہ وہ خود ان سے رابطہ کرکے پیچھے ہٹنے کی درخواست کریں، یہ منصوبہ فلاپ ہوگیا۔
تو کیا عمران خان اپنے ہوش وحواس گنوا بیٹھے ہیں؟ شاید ہاں۔ لیکن سیاستدانوں میں اس طرح کی بےچینی پائی جانا غیرمعمولی نہیں بالخصوص ایسا شخص جسے اعلیٰ درجے کا پیار اور اثرورسوخ ملا ہو۔ 2019ء میں نفسیات کے امریکی پروفیسر ڈیوڈ پی باراش نے لکھا کہ سیاسی رہنما اکثر اوقات غصے، مایوسی، ضد، انتقام، غرور اور اپنے پختہ یقین دوسروں پر نافذ کر سکتے ہیں بالخصوص تب کہ جب انہیں کوئی خطرہ لاحق ہو۔ اس کے علاوہ مخصوص حالات میں غیرمعقول اقدامات پھر چاہے وہ مہلک ہی کیوں نہ ہوں، انہیں وہ بھی جائز لگتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے آخری ایام میں اپنے بنکر میں محصور ایڈولف ہٹلر نے حکم دیا کہ وہ جرمنی کی مکمل تباہی چاہتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں جرمن عوام نے اسے مایوس کیا۔ 1941ء میں جب جاپانی وزیردفاع نے پرل ہاربر پر امریکی بحریہ پر حملے کا حکم دیا تو اس نے کہا، ’کبھی کبھی یہ ضروری ہوتا ہے کہ آپ آنکھیں بند کرلیں اور کیومیزو ٹیمپل (جاپان میں خودکشی کے مقام کے طور پر مشہور ہے) سے چھلانگ لگا دیں‘۔
دباؤ، پاگل پن اور اثرورسوخ کھونے کے خوف کے سیاستدان پر تباہ کُن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر کسی رہنما نے اثرورسوخ اور بڑے پیمانے پر حمایت حاصل کرلی ہے لیکن پھر اسے محسوس ہونے لگے کہ وہ اسے کھونے کے قریب ہے تو وہ جارحانہ طریقوں سے بھی طاقت کی بحالی کی سازشیں کرسکتا ہے۔
1993ء میں سائیکولوجسٹ جے ڈی میئر نے ایک مطالعے میں لکھا کہ یہ وہ موڑ ہوتا ہے جب ایک سیاستدان ’خطرناک‘ ہوجاتا ہے۔ انہوں نے اسے خطرناک لیڈر کا ڈس آرڈر (ڈی ایل ڈی) کہا۔ اس کے ڈس آرڈر کی علامات میں لوگوں کے مصائب کے حوالے سے بے حسی اور دیگر لوگوں کی قدر کم سمجھنا، تنقید کے حوالے سے عدم برداشت اور خود کو خصوصی شہری سمجھنے کا احساس شامل ہیں۔
بہت سے پاپولسٹ رہنماؤں میں اس ڈس آرڈر کی علامات واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ حال ہی میں جب عمران خان اور ان کے ساتھی اپنے حامیوں کو بھڑکا رہے تھے کہ وہ اسلام آباد میں تعینات فوجی دستوں کا سامنا کریں، کچھ سیاسی مبصرین نے افسوس کے ساتھ تبصرہ کیا کہ عمران خان اپنے حامیوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کررہے ہیں کیونکہ انہیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنے کے لیے چند لاشوں کی ضرورت ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عمران خان تنقید کو اچھے انداز میں نہیں لیتے، حتیٰ کہ جیل میں بھی انہیں یقین ہے کہ وہ دوبارہ وزیراعظم بنیں گے اور ملک کو اس طرح چلائیں گے جیسے وہ چلانا چاہتے ہیں۔ پرویز ہود بھائی نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا کہ ایسا کچھ ہونے والا ہے۔ دراصل ایسے بھی حلقے ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ تین ملٹری قیادت کو متنبہ کیا تھا کہ وہ ایسے شخص پر سرمایہ کاری نہ کریں جو ’مناسب سیاست‘ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا، جو جذباتی، اناپرست، توہم پرست ہے اور اگر اسے منظرنامے سے ہٹایا گیا تو وہ اپنی سابقہ پوزیشن کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ان کی پوزیشن ان سے چھینی نہیں گئی۔ انہوں نے متعدد مواقع پر غیرمعقول رویے سے اسے خود گنوایا۔ ملٹری اسٹیبلسمنٹ نے انہیں ملکی معیشت اور خارجہ پالیسی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھنے لگی۔ دوسری جانب ان کے سیاسی مخالفین کے مطابق عمران خان اعلیٰ رینک کے فوجی افسران اور ججز کے ہمراہ تمام اپوزیشن کو ختم کرکے اقتدار میں رہنے کی سازش کررہے تھے، پاکستان کو یک جماعتی ملک بنانا چاہتے تھے اور ملٹری کو اپنی ذاتی پولیس فورس میں تبدیل کررہے تھے۔
یہ ان کے پاگل پن کا صرف ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ اس وقت سامنے آیا جب 2022ء میں انہیں آئین کی مدد سے اقتدار سے بےدخل کیا گیا اور پھر انہیں متعدد الزامات پر جیل میں ڈال دیا گیا۔ یہی وہ موقع ہے کہ جب خطرناک لیڈر کا ڈس آرڈر متحرک ہوتا ہے۔ اور یہ ڈس آرڈر ان کے دوبارہ وزیراعظم بننے کے کسی بھی امکان کو ختم کررہا ہے۔