امریکی صدر جوبائیڈن کے حکم پر وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے امریکہ کا جدید ترین فضائی دفاع کا نظام ‘ٹرمینل ہائی آلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس’ (THAAD) کو مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجیوں سمیت ڈپلائی کروا دیا ہے، امریکی میڈیا کے مطابق یہ میزائل شکن نظام پیر کے روز اسرائیل پہنچا اور اب اس کی مخصوص مقامات پر تعیناتی عمل میں آ چکی یے، اس لیئے اب ایران پر اسرائیلی حملہ کسی بھی وقت ممکن ہے، صف اول کے امریکی نیوز چینل سی این این نے بریکنگ نیوز دی ہے کہ اسرائیل نے ایرانی اہداف کو نشانہ بنانے کی مکمل تیاری کر لی ہے، اور اب صرف حکم کا انتظار ہے۔
امریکہ کی طرف سے اسرائیل میں اپنے میزائل دفاعی نظام اور امریکی فوجیوں کی یہ ڈپلائیمنٹ غزہ میں جاری ایک سال سے زائد اسرائیلی جنگ کے دوران پہلی بار کی گئی ہے۔ اس سے پہلے اعلان کرکے براہ راست امریکی فوجی کبھی اسرائیل نہیں بھیجے گئے تھے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی کی بلند ترین صورتحال مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی مداخلت کا بڑے پیمانے پر باعث بھی بن سکتی ہے۔
پینٹاگون پریس سیکرٹری میجر جنرل پیٹرک رائیڈر نے اتوار کے روز اس نئی امریکی پیش رفت کی تصدیق کی اور کہا کہ اسرائیل کو بھیجا جانے والا یہ دفاعی نظام اسرائیلی فضائی دفاع میں بہتری لائے گا اور اسرائیل کے خلاف پھیلے ہوئے میزائل حملوں کو روکنے میں مدد دے گا۔
اس امریکی فوجی ‘کانوائے’ کے ساتھ اس جدید ترین دفاعی نظام کے فاضل پرزہ جات کے ساتھ ساتھ اسے چلانے کے ماہر امریکی فوجی بھی ساتھ پہنچے ہیں۔ اور اس جدید نظام نے فوری طور پر اپنی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ انہوں نے پینٹاگون کو یہ حکم اسرائیل کے ایران کے خلاف ممکنہ جوابی حملے کے پیش نظر دیا ہے۔ تاکہ اسرائیلی نظام کو کسی قسم کا مسئلہ نہ ہو۔
اس غیر معمولی پیش رفت کے بعد امریکہ و اسرائیل کا خیال ہے کہ وہ ایرانی بیلسٹک میزائلوں سے اسرائیل کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہیں گے اور ایران پر اسرائیلی امکانی حملوں کے بعد بھی اسرائیلی دفاع کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ تاہم یہ پہلا موقع ہوگا کہ اسرائیل کی طرف سے امریکی فوج بھی براہ راست ایران کے خلاف اسرائیل میں موجود رہ کر ان حملوں کے دوران بروئے کار رہے گی۔
دوسری طرف امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے امریکہ کو یقین دلایا دیا ہے کہ وہ ایران کی جوہری یا تیل کی تنصیبات پر حملہ نہیں کرے گا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے خبردار کر دیا ہے کہ یہ یقین دہانی حتمی نہیں ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کا خیال ہے کہ اس نے اسرائیل سے یہ یقین دہانی حاصل کر لی ہے کہ وہ ایران کے جوہری یا تیل کے مقامات کو ایک ایسے وقت میں نشانہ نہیں بنائے گا۔
تاہم، امریکی عہدہ داروں نے، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نجی سفارتی بات چیت پر گفتگو کی ہے، خبردار کیا کہ یہ یقین دہانی حتمی نہیں ہے اور یہ کہ حالات بدل سکتے ہیں۔ عہدیداروں نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں یقین دہانیوں کو پورا کرنے کے بارے میں اسرائیل کا ٹریک ریکارڈ ملا جلا ہے اور اس نے اکثر اندرون ملک اسرائیلی سیاست کی عکاسی کی ہے جس نے واشنگٹن کی توقعات پر پانی پھیرا ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال گزشتہ ماہ سامنے آئی جب امریکی حکام کو ان کے اسرائیلی ہم منصبوں نے بتایا تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو لبنان کے لیے امریکی اور فرانسیسی قیادت میں عارضی جنگ بندی کے اقدام کا خیرمقدم کریں گے لیکن اس کے دو دن بعد دیکھا گیا کہ اسرائیل نے ایک بڑا فضائی حملہ کیا جس میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ ہلاک ہوئے تھے۔
نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ "ہم امریکہ کی رائے کو سنتے ہیں، لیکن ہم اپنے حتمی فیصلے اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر کریں گے”۔