یوکرین جنگ کی وجہ سے امریکہ اور مغرب کے شدید دباؤ نے روس کو معاشی اور دفاعی حوالے سے بہت بڑے چیلنج سے دوچار کر رکھا ہے اور اس صورتحال سے عہدہ برا ہونے کیلئے روس کو اپنی دفاعی و دیگر مصنوعات اور تیل و گیس کیلئے نئی منڈیوں کی تلاش ہے، صدر پیوٹن نے اس موقع پر ایک اور بڑا داؤ کھیلا ہے اور ایشیاء و افریقہ کے مختلف ممالک کو دنیا کی جدید ترین حساس دفاعی ٹیکنالوجی کی لوٹ سیل لگا دی ہے، روس نے مختلف چینلز کے ذریعے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، ایران، مصر، نائیجیریا، آذر بائیجان، شمالی کوریا، برما، بنگلہ دیش، بھارت، افغانستان اور پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک کو ایٹمی و میزائل پروگرام سے لے کر ففتھ جنریشن لڑاکا طیاروں اور خلائی ٹیکنالوجی تک کی فراہمی کی پیشکش کر دی ہے اور کئی ممالک کے ساتھ اس حوالے سے دوطرفہ تجارت بہت آگے بھی بڑھ چکی ہے، ترکی، ایران اور شمالی کوریا اس حوالے سے خاص طور پر قابل ذکر ہیں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان بھی اس لوٹ سیل میں خاصی دلچسپی لے رہے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے پیدا ہو جانے والے ان مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھا لیا جائے کیونکہ عام حالات میں یہ انتہائی اعلیٰ اور حساس دفاعی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کیلئے عالمی طاقتوں کی بڑی منت سماجت کرنا پڑتی ہے اور ان کی رضامندی حاصل کرنے کیلئے برسوں پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔
پاکستان اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی و اسٹریٹجک تعلقات کی رفتار غیر معمولی ہو چکی ہے اور روس کے وزیرِاعظم، نائب وزیرِاعظم کے بعد نائب وزیرِ دفاع نے بھی پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ اس سے قبل روسی ڈپٹی چیف آف جنرل اسٹاف پاکستان تشریف لائے تھے۔ حالیہ وزٹ کے دوران روسی فیڈریشن کے نائب وزیر دفاع کرنل جنرل الیگزینڈر وی فومن نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت دیگر اعلٰی فوجی حکام سے بھی ملاقاتیں کیں۔
ماہرین کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات وسیع ہو رہے ہیں اور یہ دورے پاکستان کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتے ہیں جو خطے میں پاکستان کی جیو اسٹریٹجک پوزیشن کی وجہ سے اسے حاصل ہے، پاکستان کا دفاعی معاملات کے لیے انحصار امریکہ پر کم ہو کر دیگر ممالک پر بڑھ رہا ہے جن میں پہلے چین کو مرکزی حیثیت حاصل رہی اب روس بھی اس صف میں شامل ہونے جا رہا ہے۔
روس کے نائب وزیرِ دفاع نے پاکستان کے صدر اور وزیرِاعظم سمیت دیگر حکام سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ ماہرین روسی حکام کے تواتر کے ساتھ پاکستان کے دوروں کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات آگے بڑھنے کی کڑی قرار دے رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں اور ملٹری ہارڈویئر میں پاکستان کا انحصار امریکہ اور مغربی ممالک پر کم ہو رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان چین کے ساتھ پہلے ہی تعاون کر رہا ہے اور اگر روس کے ساتھ پاکستان دفاع کے شعبے میں تعاون بڑھاتا ہے تو اس سے پاک فوج کی صلاحیتوں میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔
روسی نائب وزیرِ دفاع سے قبل اسلام آباد میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں روسی وزیرِاعظم بھی پاکستان آئے تھے۔
اس سے پہلے روس کے نائب وزیرِاعظم بھی پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ روسی فیڈریشن کونسل کی اسپیکر ویلنٹینا مٹوینیکو پاکستان آئیں جہاں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے فروغ پر بات چیت کی گئی۔
روسی نائب وزیرِ دفاع کی آرمی چیف عاصم منیر سے ملاقات پر آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ملاقات میں علاقائی سیکیورٹی کی صورتِ حال اور باہمی دلچسپی کے امور بشمول دو طرفہ دفاعی اور سیکیورٹی تعاون بڑھانے پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
روسی فیڈریشن کے نائب وزیر دفاع کرنل جنرل الیگزینڈر وی فومن نے نیول ہیڈکوارٹرز اسلام آباد کا بھی دورہ کیا، جہاں ان کی ملاقات چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل نوید اشرف سے ہوئی۔
ملاقات میں باہمی دلچسپی کے پیشہ ورانہ امور، علاقائی میری ٹائم سیکیورٹی صورتحال اور دوطرفہ بحری تعاون پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل نوید اشرف نے کہا کہ پاکستان روسی فیڈریشن کے ساتھ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے اور طویل المدتی کثیر جہتی شراکت داری کا خواہاں ہے۔
اس ملاقات کے دوران دونوں بحری افواج کے درمیان دوطرفہ تربیت، بحری جنگی جہازوں کے دوروں اور دوطرفہ بحری مشقوں کے انعقاد پر بھی غور کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے میری ٹائم سیکیورٹی اور بحری ٹیکنالوجی کے شعبوں میں باہمی تعاون کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان تعاون بڑھنا خطے میں پاکستان کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے اور روس، چین کے بعد پاکستان سے بھی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کا خواہاں ہے۔
اکتوبر کے پہلے ہفتے میں روسی مسلح افواج کے ڈپٹی چیف آف جنرل سٹاف کرنل جنرل سرگئی یورواوچ استراکوف نے پاکستان کا تفصیلی دورہ کیا اور جوائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹرز کا بھی وزٹ کیا، اس دوران انہوں نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا سے ملاقات کی اور دوطرفہ دفاعی تعاون پر اطمینان کا اظہار کیا، ملاقات میں علاقائی امن و استحکام کو فروغ دینے کےلیے خطے کی سیکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ روسی جنرل نے پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ وارانہ مہارت کی تعریف کی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج کی قربانیوں کا بھی اعتراف کیا۔
روسی جنرل نے پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ وارانہ مہارت کی تعریف کی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج کی قربانیوں کا بھی اعتراف کیا۔
روسی جرنیل کے دورہ پاکستان سے قبل جولائی کے دوسرے ہفتے میں پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے روس کا تفصیلی دورہ کیا، اور۔ روس کے وزیر دفاع، نائب سیکرٹری سکیورٹی کونسل سے اہم ملاقاتیں کیں اور نائب روسی وزیر دفاع، نائب سیکرٹری سکیورٹی کونسل اور روسی مسلح افواج کے ڈپٹی چیف آف جنرل سٹاف سے بھی ملاقاتیں کیں، ان ملاقاتوں کے دوران کثیرالجہتی دفاعی تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا گیا، ملاقاتوں میں دوطرفہ روابط، تجارت، توانائی اور سلامتی کے امور پر بھی غور کیا گیا۔
دنیا بھر کا میڈیا پاکستان اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطوں پر نظریں گاڑے ہوئے ہے، وائس آف امریکہ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ دفاع کے شعبے میں روس اور پاکستان کے درمیان فوجی تعلقات بھی قائم ہیں۔ سن 2014 میں پاکستان اور روس نے مشترکہ دفاعی تعاون شروع کیا جس میں ملٹری انٹیلی جینس معلومات کا تبادلہ‘ مشترکہ فوجی مشقیں اور فوجی ساز و سامان کی فروخت شامل تھی۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر کہتے ہیں کہ پاکستان کا دفاعی معاملات کے لیے انحصار امریکہ پر کم ہو کر دیگر ممالک پر ہو رہا ہے اور پاکستان نے چین سے جے 10 طیاروں سمیت دیگر ممالک سے دفاعی سامان خرید کر تعلقات میں توازن رکھنے کی کوشش کی ہے۔
اُن کے بقول پاکستان کا روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کا معاہدہ ہوا ہے اور ڈالر کے علاوہ دیگر کرنسیوں میں خرید و فروخت پر بات ہو رہی ہے۔ روس کے ساتھ پاکستان نے حالیہ عرصے میں سستا تیل خریدا جس سے پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ روس جب بھارت کو تیل فروخت کرتا ہے تو وہ 30 فی صد تک کم قیمت ہوتا ہے جو پاکستان کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے ریجن میں روس کا ایران کے ساتھ تعاون بہت بڑھا ہے اور ڈرون ٹیکنالوجی سمیت کئی چیزوں میں روس اور ایران کا تعاون بڑھا ہے اور اس ریجن میں اگر پاکستان کے ہمسایہ کے ساتھ ٹیکنالوجی ٹرانسفر ہو رہی ہے تو یہ سہولت پاکستان کو بھی مل سکتی ہے۔
بریگیڈیئر (ر) سید نذیر کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصے میں چین اور روس کے درمیان کاروباری معاملات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وجہ سے بہت سے ایسی چیزیں جو چین روس سے خرید کر دوسرے ممالک کو فروخت کرتا ہے وہ ہم براہ راست بھی لے سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں بننے والے جے ایف 17 جہاز کے انجن روسی ساختہ ہوتے ہیں جو چین روس سے خرید کر پاکستان کو فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ سپئیر پارٹس کی بھی ہمیں ضرورت ہوتی ہے جو ہم براہ راست خرید سکتے ہیں۔
روس نے کچھ عرصہ قبل بھارت کو دفاعی نظام ایس 400 فراہم کیا تھا۔ یہی نظام ترکیہ کو دیا گیا تھا۔ ایسے میں بھارت روس، امریکہ سمیت یورپین جہاز بھی خرید رہا ہے، پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا کہ وہ مختلف ممالک سے یہ سامان خریدے اور اپنی ٹیکنالوجی کو بہتر بنا سکے۔
بریگیڈئیر (ر) سید نذیر کا کہنا تھا کہ پاکستان برکس اور ایس سی او سمیت دیگر تنظیموں میں اپنی شمولیت اسی وجہ سے بہتر بنا رہا ہے کہ وہ معاشی طور پر مستحکم ہو سکے۔
اُن کا کہنا تھا کہ روس اور پاکستان کے دفاعی تعاون میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا، لیکن ملٹری ہارڈویئر اور مشترکہ فوجی مشقوں کے ذریعے دونوں ملکوں نے تعلقات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔
آرمی ایوی ایشن میں پاکستان کے زیرِ استعمال روسی ہیلی کاپٹرز کے حوالے سے بریگیڈئیر (ر) سید نذیر نے کہا کہ ملٹری ہارڈویئر میں جب آپ ایک ٹیکنالوجی کو ایک عرصے تک استعمال کریں تو اس کے بعد ان کی تبدیلی ضروری ہوتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس موجود ہیلی کاپٹرز بھی ایک عرصے سے استعمال ہو رہے ہیں اور اب ان کی تبدیلی ضروری ہے۔ لیکن کسی اور ملک کے بجائے اگر وہ روس سے ہی خریدے جائیں یا انہی ہیلی کاپٹرز کو اپ گریڈ کیا جائے تو پاکستان میں ان کی مرمت اور دیگر معاملات میں بہت آسانی رہے گی۔
بریگیڈئیر (ر) سید نذیر کا کہنا تھا کہ ہمارے پائلٹس ان ہیلی کاپٹرز کو اڑانے کے ماہر ہیں اور کسی اور ملک سے لینے کی صورت میں دوبارہ سے پائلٹس کی تربیت سمیت ان کی لاجسٹک سپورٹ کے بہت سے ایشوز ہوں گے۔
پاکستان نے روس سے ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر خریدے تھے اس کے علاوہ پرانے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر بھی اب تبدیل کرنا ضروری ہیں اور روس اس سلسلے میں پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔
پاکستان فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دفاعی معاملات سے پہلے ہمیں روس کے ساتھ سیاسی اور سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ چین اور روس کی وجہ سے ہمارے افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات بہتر ہو جائیں تو یہ پاکستان کے حق میں بہتر ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اپنی معیشت کمزور ہے ایسے میں روس کی مدد سے افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنالے جو ملک میں پائیدار امن لائے تو یہ معاملہ ملٹری تعاون سے زیادہ اہم ہے۔
جنرل نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی بھی ملٹری بلاک کا حصہ نہیں بننا چاہتا، پاکستان برکس اور ایس سی او سمیت دیگر تنظیموں میں شمولیت کا تو خواہاں ہے۔ لیکن وہ امریکہ کے خلاف یا کسی بھی اور ملک کے خلاف کسی ملٹری بلاک کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔
انہوں نے کہا کہ روس کے قریب جانے کی صورت میں پاکستان کو بھارت سے خطرات میں کمی ہو گی کیوں کہ بھارت اور روس ایک عرصے سے ایک دوسرے کے ساتھ پارٹنر ہیں۔ اس وقت پاکستان کی روس کے حوالے سے جو تبدیلی آئی ہے وہ بہتر تبدیلی ہے۔
ملٹری ہارڈویئر میں روس سے تعاون کے حوالے سے جنرل نعیم لودھی نے کہا کہ تیکنیکی معاونت ایک دوسرے کے ساتھ بہت ضروری ہے۔ پاکستان کے مختلف ٹینکس اور توپ خانہ سمیت کئی ملٹری ہارڈویئرز میں روس پاکستان کے ساتھ تعاون کر سکتا ہے۔
اُن کے بقول ماضی میں روس نے اسٹیل کے شعبے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کیا تھا اور اگر روس اس میں پاکستان کی مدد کرے تو پاکستان کی صنعتی ترقی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کو روس نے ایس 400 نظام دیا ہے، اس وقت پاکستان کا ایئر ڈیفنس سسٹم دیگر ممالک سے حاصل کیا ہوا ہے اور وہ کمزور نہیں ہے۔ لیکن وہ آئرن ڈوم یا ایس 400 کے مقابلہ کا نہیں ہے اور اگر کل کو روس پاکستان کے ساتھ ایسا تعاون کرتا ہے تو پاکستان کے دفاع کے لیے یہ بہت اہم ہو گا۔