امریکہ کی روس سے متعلق پالیسی میں ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بنتے ہی حیران کن تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے
صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے تقریباً 90 منٹ کی ٹیلی فونک گفتگو کی جس کا احوال خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ
"ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی قریب ہوکر اور مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے صدر ٹرمپ نے یہ بھی واضح کیا کہ یوکرین جنگ کے بعد نیٹو کا رکن نہیں بن سکے گا "۔
قارئین کرام آپ کو یاد ہوگا کہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی صدارت کے دوران یوکرین سے وعدہ کیا تھا کہ اسے نیٹو کا رکن بنایا جائے گا
جسے اس وقت روس نے مسترد کر دیا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی مواقع پر یوکرینی صدر کو "امر” اور "بے کار” شخص قرار دے چکے ہیں ۔
ٹرمپ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ
اگر جنگ ختم ہونے کے بعد یوکرین میں "امن” فوج تعینات کی جاتی ہے تو اس عمل میں امریکہ یورپ کی مدد نہیں کرے گا
جس پر روس کا ردعمل بھی آیا اور واضح کیا کہ روس یوکرین میں مغربی افواج کی تعیناتی کے اعلان کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے
قبل ازیں روس اور یوکرین کے مابین جنگ کے تین سال مکمل ہونے پر اقوام متحدہ میں ہونے والے حصوصی اجلاس میں امریکہ نے روس کے خلاف ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور روس کی مزمت پر مبنی قراداد کا حصہ بننے سے صاف انکار کردیا
قارئین کرام !
یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یورپی اتحادوں سے دوری اور روس کی طرف جھکاؤ امریکہ کی 80 سالہ پرانی خارجہ پالیسی سے علیحدگی اختیار کرنے جیسا ہے۔ لیکن تاحال ہم اسے امریکہ کی نئی خارجہ پالیسی کی حکمت عملی تو نہیں کہہ سکتے البتہ ہمیں یہاں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے اس بیان کو سامنے رکھنا ہوگا جو انھوں نے 25 فروری 2025 کو ایک نیوز ویب سائٹ کو بتایا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ روس اور چین کے درمیان تعلقات کو کمزور کرنا چاہتے ہیں
ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ میرے خیال میں روس ہمیشہ کے لئے چین کا جونئیر پارٹنر نہیں بننا چاہیے گا کیونکہ ایسی صورتحال میں روس کو وہی کرنا پڑے گا جو چین کہے گا امریکی وزیر خارجہ کا بتانا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ روس کے لئے اچھا ہے یہ امریکہ یا یورپ اور دنیا کے لئے بھی اچھی بات نہیں ہے ،یہ امریکہ کے لئے بھی خطرناک ہوگا کیونکہ امریکہ کے خلاف دو ایٹمی طاقتوں کے متحد ہونے کی بات کر رہے ہیں
امریکی وزیرِ خارجہ روبیو کا یہ بھی کہنا تھا کہ
امریکہ چین کے عالمی تجارتی نیٹ ورک کو چیلنج کرے گا جسے بیلٹ اینڈ روڈ اینشیٹیو کہا جاتا ہے
قارئین کو یاد ہو تو چین نے روبیو کے ان ریمارکس پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار بھی کیا تھا
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لی جیان نے کہا کی چین اور روس کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی امریکی کوشش ناکام بنا دی جائے گی چین اور روس کے پاس ترقی کے لئے طویل مدتی حکمت عملی ہے
یہاں میں اپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ آج ٹرمپ حکومت کے وزیر خارجہ مارکو روبیو جس حکمت عملی کی بات کر رہے ہیں وہ سابق امریکن صدر رچرڈ نکسن کی وہی پالیسی ہے جو رچرڈ نکسن نے سویت یونین کے دور میں اپنائی تھی۔اس وقت آمریکی صدر رچرڈ نکسن نے روس کو تنہا کرنے کے لئے چین کے ساتھ تعلقات استوار کئے تھے
قارئین کرام اب لگ یوں رہا ہے کہ امریکہ روس کے ساتھ تعلقات کو استوار کرکے چین کو تنہا کرنا چاہتا ہے یہ بالکل رچرڈ نکسن کی ریورس پالیسی یا پھر کسنجر کی ریورس پالیسی ہے۔
امریکی تھنک ٹینک کونسل فار فارن ریلیشنز کے مطابق مارکو روبیو کی بات سے واضح ہے کہ
وائٹ ہاؤس اور اس کے کٹر مخالفین چین کو تنہا کرنے اور اس کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر کو کم کرنے کے لئے روس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں پروفیسر کلاؤڈ ولی جو کہ لندن سکول آف اکنامکس سے منسلک ہیں کہتے ہیں کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ روس چین کے لئے خام مال کی سپلائی کا مرکز بن جائے اور اپنے وسائل اور معدنیات چین کو سستے داموں بیچے اور اس کے نتیجے میں چین کو امریکہ پر برتری ملے۔
تاہم برطانیہ میں مقیم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز کی ڈاکٹر ڈانا ایلن کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے روس کے صدر پیوٹن کی حمایت کوئی سفارتی حکمت عملی نہیں اور یہ انتہائی ذاتی نوعیت کا معاملہ ہے اور یہ ٹرمپ کی پہلے دور صدارت میں بھی ابھر کر سامنے آیا تھا
قارئین کرام !
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ اوول آفس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر کے درمیان غیر معمولی جھڑپ ہوئی تھی جس کے بعد امریکہ نے یوکرین کو فوری طور پر انٹیلیجنس شئیرنگ اور سیکورٹی امداد کی فراہمی معطل کردی تھی
اوول واقعے کے بعد گزشتہ دنوں سعودی عرب کے شہر جدہ میں ان دونوں ممالک کے درمیان پہلی با ضابطہ ملاقات ہوئی ہے بعد میں جاری کردہ اعلامیے کے مطابق امریکہ فوری طور پر انٹیلیجنس شئیرنگ اور سیکورٹی امداد کی فراہمی شروع کر دے گا جسے چند روز قبل معظل کر دیا گیا تھا۔
روس اور چین کو الگ کرنے کے لئے امریکہ کو بہت سخت محنت کرنا پڑ سکتی ہے
یوکرین پر حملے سے قبل 2022 میں روس اور چین نے نہ ختم ہونے والی دوستی کے عزم کا اعادہ کیا تھا اور اس کے بعد سے ان دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں تیزی سامنے آئی
چین روسی خام تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے جس نے سال 2024 میں 62 ارب مالیت کا روسی خام تیل خریدا ہے جبکہ چین کی طرف سے سال 2021 میں کی جانے والی روسی خام تیل کی خریداری محض 20 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھی۔
یوکرین پر حملے کے بعد مغربی ممالک نے روسی تیل کی درآمد پر پابندی عائد کردی تھی جس کے بعد چین کو روس سے مزید سستا تیل خریدنے کا موقع ملا
دوسری طرف چین روس کی کمپیوٹر چپس۔ کے ہائی ٹیک الات کی ضرورت کو پورا کرنے میں ایک قابل قدر شراکت دار بن کر ابھرا ہے
تاہم شنگھائی اکیڈیمی آف گلوبل گورننس اینڈ ایریا سٹڈیز سے منسلک پروفیسر یانگ چینگ کا کہنا ہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان مکمل ہم آہنگی کا امکان ان دونوں ممالک کے درمیان پیچیدہ تاریخی عدم اعتماد اور نظریاتی اختلافات کی وجہ سے شائد ممکن نہ ہو انھوں نے بی بی سی کو بتاتے ہوئے کہا ہے کہ روس امریکہ خارجہ پالیسی کا یکطرفہ الہ کار بنے کی بجائے سٹریٹجک خود مختاری برقرار رکھے گا
Author
-
سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025بیورو چیف، پی این این، پشاور
جنوری 2023 تا جنوری 2024بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
16 فروری 2005 تا 21 جون 2008رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
فروری 2000 تا 30 نومبر 2003