عالمی سیاست اور میڈیا کی دنیا میں سچائی اور دیانتداری ایک نایاب سرمایہ بن چکی ہیں۔ ایسے میں جب ایک ملک جھوٹ پر مبنی مہم چلاتا ہے اور دوسرا ملک شفافیت اور سچائی کے ذریعے اپنی ساکھ قائم رکھتا ہے، تو فرق خود بخود واضح ہو جاتا ہے۔ 7 مئی 2025 کو بھارت کی جانب سے پاکستان پر ہونے والی بزدلانہ جارحیت اور اس کے بعد کی میڈیا جنگ نے دنیا کو یہی سبق سکھایا۔
7 مئی 2025 کو بھارت نے بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے شہری علاقوں پر حملہ کیا اور جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے درجنوں معصوم سویلین کو شہید کیا اس حملے کا مقصد صرف فوجی برتری نہیں بلکہ پاکستان کے اندر عدم استحکام پیدا کرنا تھا تاہم پاکستان نے بھرپور دفاع کرتے ہوئے نہ صرف حملے کو ناکام بنایا بلکہ پانچ بھارتی جنگی طیارے اور 93 ڈرون بھی مار گرائے۔ یہ بات صرف پاکستانی ذرائع نے نہیں کہی بلکہ غیر جانبدار عالمی مبصرین اور ملٹری انٹیلیجنس رپورٹس نے بھی اس کی تصدیق کی۔
دوسری طرف انڈیا نے دروغ گوئی کے ایسے میزائل چلائے کہ وہ آزاد عالمی میڈیا کو اپنے کسی ایک دعوی کا ثبوت نہ دے سکا۔
بھارتی میڈیا نے ہمیشہ کی طرح ایک جھوٹا اور گمراہ کن بیانیہ ترتیب دیا۔ بھارتی چینلز پر پاکستان کے شہروں کی تباہی کی جعلی ویڈیوز، فیک گرافکس اور ایمیجز پیش کی گئیں۔ ان میں دکھایا گیا کہ پاکستان کا متعدد شہروں کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے،
لیکن ان تصاویر یا ویڈیوز کا کوئی ثبوت نہ مل سکا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی ویڈیوز پرانی یا دوسرے ممالک کی جنگوں سے لی گئیں، جنہیں ایڈیٹ کر کے پاکستان سے جوڑ دیا گیا۔ یہ عمل صرف غیر پیشہ ورانہ نہیں بلکہ بین الاقوامی میڈیا اخلاقیات کی بھی خلاف ورزی ہے۔
پاکستان نے اس موقع پر نہایت تحمل، شفافیت اور عقلی انداز اپنایا۔ حکومت نے فوری طور پر عالمی صحافیوں، مبصرین، اور فیکٹ چیکرز کو دعوت دی کہ وہ خود آ کر حالات کا جائزہ لیں۔ اسکائی نیوز، فرانس 24، الجزیرہ، TRT ورلڈ، سی این این ، بی بی سی اور رائٹرز جیسے بڑے اداروں کو مکمل آزادی دی گئی۔
ان صحافیوں نے زمینی حقائق کا مشاہدہ کیا اور پھر رپورٹ کیا کہ بھارتی دعوے جھوٹ پر مبنی تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نہ کوئی شہری انفراسٹرکچر تباہ ہوا، نہ کوئی فوجی تنصیب نشانہ بنی البتہ بھارتی طیاروں کا ملبہ ضرور کئی جگہوں پر موجود تھا۔
پاکستان نے صرف میدان جنگ میں نہیں، بلکہ سفارت کاری کے میدان میں بھی فتح حاصل کی۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے حکام نے پاکستان کی شفافیت کو سراہا اور کہا کہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی بھارت نے کی ہے۔ یورپی یونین کے سفارتکاروں نے بھارت کے مؤقف کی تائید کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ کسی بھی قسم کے شواہد سے خالی تھا۔
امریکہ، چین، روس اور دیگر طاقتور ممالک نے بھی فوری طور پر فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا، تاہم بین السطور پاکستان کے ردعمل کو متوازن اور ذمہ دارانہ تسلیم کیا گیا۔
اس واقعے میں بین الاقوامی فیکٹ چیکنگ اداروں جیسے Snopes، FactCheck.org اور Alt News (بھارت کا ایک آزاد ادارہ) نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے بھارتی میڈیا کی ویڈیوز اور تصاویر کا تجزیہ کرتے ہوئے ثابت کیا کہ یہ جھوٹی، ایڈیٹ شدہ یا پرانی ہیں۔ اس تجزیے نے عالمی رائے عامہ کو مزید پاکستان کی طرف مائل کر دیا۔
بھارتی میڈیا کے اس کردار پر بھارت کے اندر سے بھی آوازیں بلند ہوئیں۔ کئی مشہور بالی وڈ اداکاروں اور صحافیوں نے سوشل میڈیا پر بھارتی چینلز کو "جھوٹ کی فیکٹری” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو اپنے عوام کو سچ بتانے کی ضرورت ہے نہ کہ انہیں خوف اور نفرت سے بھرنے کی۔
اس کے برعکس، پاکستانی میڈیا کی رپورٹنگ کو عالمی ذرائع ابلاغ نے اپنی نشریات میں جگہ دی، جس سے پاکستان کی صحافتی ساکھ میں اضافہ ہوا۔
9 مئی 2025 کو رائٹرز، بی بی سی اردو، اور اے پی نے اپنی رپورٹس میں واضح طور پر کہا کہ بھارتی دعوے "آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکے” جبکہ پاکستانی حکام کی فراہم کردہ معلومات مسلسل، واضح اور قابلِ تصدیق تھیں۔ ان رپورٹس کو دنیا بھر میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا گیا، جس سے پاکستان کا مؤقف مضبوط ہوا۔
یہ واقعہ صرف ایک فوجی یا سفارتی جھڑپ نہیں تھا، بلکہ یہ "بیانیے کی جنگ” بھی تھی۔ بھارت نے جھوٹ اور پروپیگنڈا کے ذریعے عوامی رائے کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، جبکہ پاکستان نے سچ، شواہد اور شفافیت کے ذریعے دنیا کو قائل کیا۔
یہ فرق دنیا کے ہر ملک اور میڈیا ادارے کے لیے ایک سبق ہے کہ وقتی فائدے کے لیے جھوٹ بولنا آخرکار نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
آخرکار، بھارت کا جھوٹ عالمی میڈیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا اور پاکستان کا سچ سر بلند ہوا۔
پاکستان نے جنگی میدان میں چاروں شانے چت کردیا بلکہ سچ اور حقائق کے ذریعے بھارت کو میڈیااور سفارتی محاذ پر بھی ناک آئوٹ کیا پاک بھارت کشیدگی نے سچائی، شفافیت، اور آزاد صحافت کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ دنیا کو اب اس بات کا اندازہ ہو چکا ہے کہ بھارت جیسے ملک کس طرح میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں، اور پاکستان جیسے ملک کس طرح سفارت کاری، سچائی اور بین الاقوامی اصولوں کے ساتھ اپنے مؤقف کو عالمی سطح پر منوا سکتے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے اپنایا گیا مؤثر، مہذب اور شفاف رویہ نہ صرف اس کی سفارتی کامیابی ہے بلکہ خطے میں امن کے فروغ کے لیے ایک مثال بھی ہے۔ اگر عالمی برادری نے اسی جذبے کو آگے بڑھایا تو جنوبی ایشیا ایک پرامن، ترقی یافتہ اور مستحکم خطہ بن سکتا ہے۔
Author
-
ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:
View all posts