Nigah

بھارت کا کشمیریوں پر ظلم چھپانے دہشتگردی کا ڈرامہ

India's drama

بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنا ناجائز قبضے برقرار رکھنے کے لیے کشمیریوں پر گزشتہ پون صدی سے ظلم ڈھا رہا ہے لیکن کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جستجو کو ختم نہ کرسکا نہتے کشمیری بر صغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد سے بھارت کے جبرو استبداد کا پامردی سے مقابلہ کر رہے ہیں 1989 میں کشمیریوں نے تحریک ازادی کے لیے جو جدوجہد شروع کی اس میں اب تک ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد کشمیری نوجوان بچے بوڑھے خواتین قربان ہو چکے ہیں،لاکھوں زخمی اور بے گھر ہو چکے قابض ٹولے نے کشمیریوں کو اپنے ہی وطن میں مہاجر بناڈالا۔ بھارتی فوجیوں کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ عروج پر ہے خواتین کی عصمت دری چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی روزمرہ کا معمول بن چکا ہے ۔ نوجوانوں کا ریاستی اداروں کے ذریعے اغوا اور ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ بھی عروج پرہے۔
مقبوضہ کشمیر کی ایک مقامی انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق 1989 سے 2019 کے درمیان 13ہزار سے زائدکشمیری معصوم شہری بھارتی فوج کے تشدد کا شکار ہو چکے ہیں۔
بھارتی نیتاؤں نے 8 لاکھ فوجی تعینات کر کے مقبوضہ وادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا ڈالا۔جمہوریت کے خود ساختہ چیمپین سے جب پاکستان سمیت عالمی برادری اس سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے کا تقاضا کرتے ہیں تو کشمیریوں پر اپنے ظلم و ستم پر پردہ ڈالنے کے لئے بھارت کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی تحریک کو دہشتگردی سے جوڑنے کا بے بنیاد پروپیگنڈا کرتاہے، حقیقت میں کشمیریوں کی تحریک آزادی انڈیا کی طرف سے سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اورغیر قانونی قبضے کاردعمل ہے۔
بھارت کا کشمیریوں کی جدوجہد ازادی کو دہشت گردی کا لیبل لگانے کا مقصد صرف کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ریاستی تشدد پر پردہ ڈالنے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش ہے

یہ بات دنیا کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیریوں کو استصواب رائے کے ذریعے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے رکھا ہے۔ استصواب رائے پر عملدرآمد کے لیے اقوام متحدہ نے متعدد قرارداد منظور کی گئیں لیکن بھارت نے اپنا غیر قانونی قبضہ برقرار رکھنے کی خاطر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔
اس کے برعکس پاکستان نے ہمیشہ کشمیروں استصواب رائے کے حق کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ہر عالمی فورم پر اس کی بھرپور حمایت کی۔
جنوری 1951ء میں دولت مشترکہ کے سالانہ اجلاس میں بھی کشمیر کے مسئلہ پر برطانیہ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ کشمیر میں پاک بھارت مشترکہ فوج کی نگرانی میں استصواب رائے کروایا جائے۔ پاکستان نے اس تجویز کو مان لیا تھا لیکن بھارت نے رد کردیا تھا
2019 میں بھارت نے کشمیر پر اپنے غیر قانونی قبضے کو دوام دینے کے لیے آرٹیکل 370 کے تحت ملی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔
واضح رہے کہ 26 جنوری 1950ء کو منظور ہونے والے بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت تھی جس کے آرٹیکل 370 میں یہ کہا گیا تھا کہ
"یہ آرٹیکل واضح کرتا ہے کہ ریاست کو ہندوستانی پارلیمنٹ کے قوانین کے اطلاق میں متفق ہونا چاہیے، سوائے ان کے جو مواصلات، دفاع اور خارجہ امور سے متعلق ہوں۔ مرکزی حکومت ریاست کے نظم و نسق کے کسی دوسرے شعبے میں مداخلت کرنے کے اپنے اختیار کا استعمال نہیں کر سکتی۔” عسکری لحاظ سے کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ محصور علاقہ ہے ایک رپورٹ کے مطابق 2019 سے 2024 کے دوران تین ہزار سے زائد کشمیری نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔
2018 اور 2019 میں اقوام متحدہ کی کی رپورٹوں میں بھارتی فوج ان دو سالوں میں انسانی حقوق کی شدید سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دیا ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ بھی کشمیر سے متعلق بھارت کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی 2020 میں یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد میں سیاسی قیدیوں کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا بلکہ اس جدید دور میں انٹرنیٹ جیسی سہولت کو بحال کرنے کا بھی مطالبہ کیا لیکن بھارت نے اپنی طاقت کے نشے میں بنیادی انسانی حقوق کی مسلسل پامالی کرتا رہا۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ مقبوضہ وادی میں 60 فیصد بچے نفساتی پریشانی یا ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
بھارت کی حالیہ بزدلانہ جارحیت کے نتیجے میں پاک بھارت کشیدگی کے دوران کشمیریوں نے انڈین چینلز کے ذریعے ایک بار پھر انڈیا کے چہرے کو بے نقاب کردیا اور کشمیری نوجوانوں نے بتایا کہ جو کشمیری پاکستان کے حق اور بھارتی ظلم کے بارے میں سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا تو بھارتی فوج اس نوجوان کو اٹھا کر لے جاتی ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ بناتی ہے کشمیری عوام کو سیاسی حق خود اختیاری سے محروم رکھنے کی خاطر اور ان کی آواز کو دبانے کے لیے میڈیا اور فوجی طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے حالیہ بھارتی جارحیت کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر عالمی منظر نامے پر ابھر چکا ہے کشمیر کا مسئلہ محض علاقائی تنازعہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں ملکوں کو مسئلے کے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کر دی جو ایک طرح بھارت کی بڑی سفارتی شکست ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد ازادی کے نتیجے میں عالمی سفارتی حلقے اور غیر جانبدار تھینک ٹینک اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت کا کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنا قانونی اخلاقی اور تاریخی طور پر ایک کمزور دعوی ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ اس موقف کی حمایت کی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی مرضی سے طے ہونا چاہیے نہ کہ کسی فوجی جبر کے تحت۔عالمی برادری نے ماضی کی طرح خاموشی برقرار رکھی تو کشمیری عوام سنگین انسانی المیہ سے دوچار ہو سکتے ہی ہے۔

کشمیریوں کی جدوجہد ازادی کے نتیجے میں عالمی سفارتی حلقے اور غیر جانبدار تھینک ٹینک اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت کا کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنا قانونی اخلاقی اور تاریخی طور پر ایک کمزور دعوی ہے۔

Author

  • ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔