دنیا کی آنکھوں کے سامنے ایک انسانی المیہ روز بروز سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ غزہ، جو کہ پہلے ہی محصور، کمزور اور وسائل سے محروم خطہ تھا، اب مکمل طور پر لہو لہو ہو چکا ہے۔ اسرائیل، جو خود کو ایک جمہوری اور قانون پسند ریاست کہتا ہے، گزشتہ کئی مہینوں سے تمام عالمی قوانین اور انسانی حقوق کو روندتے ہوئے غزہ پر بے دریغ بمباری اور ظالمانہ محاصرے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور بین الاقوامی عدالتیں محض بیانات تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں، جبکہ غزہ کے مظلوم شہری ہر لمحہ موت، بھوک، اور تباہی کا سامنا کر رہے ہیں۔
اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ اسرائیلی فضائی حملے روزانہ کی بنیاد پر رہائشی عمارتوں، ہسپتالوں، پناہ گاہوں کو نشانہ بنا رہے ہیں یہاں تک کہ مساجد بھی اس بربریت سے محفوظ نہیں۔ عالمی رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 50 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جبکہ ہزاروں اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
اسرائیل کی کارروائیاں نہ صرف اخلاقی طور پر قابل مذمت ہیں بلکہ یہ بین الاقوامی قوانین اور جنیوا کنونشنز کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ شہری آبادی کو دانستہ نشانہ بنانا، اسپتالوں اور ریلیف مراکز پر حملے کرنا اور بنیادی سہولیات کو تباہ کرنا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ان جرائم پر عالمی سطح پر خاطر خواہ کارروائی نظر نہیں آتی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بارہا غزہ میں جنگ بندی کی اپیل کی، مگر اسرائیل نے ان اپیلوں کو بھی نظرانداز کیا۔ امریکہ اور بعض یورپی ممالک نے اسرائیل کی حمایت میں سفارتی پردہ پوشی کی پالیسی اپنائی، جس سے اسرائیل کو مزید حوصلہ ملا۔
غزہ میں اسرائیلی محاصرے کے باعث اشیائے خوردونوش کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق غزہ میں 90 فیصد آبادی کو یومیہ ایک وقت کا کھانا بھی دستیاب نہیں۔ ماں باپ اپنے بچوں کو بھوکا سلا رہے ہیں، لوگ گھاس، پتے اور جانوروں کا چارہ کھانے پر مجبور ہیں۔
بچوں کی غذائی قلت ایک سنگین بحران اختیار کر چکی ہے۔ ہزاروں بچے شدید غذائی کمی اور پانی کی آلودگی سے متاثر ہیں۔ اسپتالوں میں خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے سینکڑوں بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگر فوری انسانی امداد نہ پہنچائی گئی تو آنے والے دنوں میں یہ بحران لاکھوں جانیں نگل سکتا ہے۔
اسرائیل کی بمباری نے غزہ کے صحت کے نظام کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ 75 فیصد ہسپتال یا تو مکمل تباہ ہو چکے ہیں یا بند ہو چکے ہیں۔ باقی ہسپتالوں میں بجلی، پانی، ادویات اور طبی آلات کی شدید قلت ہے۔ زخمیوں کی بڑی تعداد کو کھلے آسمان تلے علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹرز بغیر دوا، آکسیجن یا اینستھیزیا کے آپریشن کر رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے اسے انسانی تاریخ کا بدترین صحت کا بحران قرار دیا ہے۔
غزہ میں تعلیم کا نظام مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔ ہزاروں اسکول تباہ ہو چکے ہیں، اساتذہ اور طلبہ شہید ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے زیر انتظام اسکول بھی بمباری کا نشانہ بنے ہیں۔ لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں۔
روزگار کے ذرائع ختم ہو چکے ہیں، فیکٹریاں، دفاتر اور بازار مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ 20 لاکھ کی آبادی بے گھری، بھوک اور خوف کے عالم میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عالمی طاقتیں، جو جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کا دم بھرتی ہیں، اس سنگین انسانی المیے پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک نہ صرف خاموش ہیں بلکہ اسرائیل کو اسلحہ، مالی امداد، اور سیاسی حمایت فراہم کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی قراردادیں ویٹو کی نذر ہو رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل خبردار کر رہی ہیں مگر ان کی آوازوں کو طاقت کے مراکز میں سنا نہیں جا رہا۔
ایک اور قابل افسوس حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ممالک کی اکثریت اس ظلم پر محض مذمتی بیانات تک محدود ہے۔ کچھ ممالک نے اسرائیل سے تجارتی روابط بھی برقرار رکھے ہیں۔ او آئی سی جیسے فورمز بھی فعال کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ فلسطینیوں کو عملی مدد، فوری امدادی سامان، اور سیاسی حمایت کی اشد ضرورت ہے، مگر مسلم دنیا کی قیادت داخلی تنازعات میں الجھی ہوئی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کی اکثریت یا تو اس ظلم کو نظرانداز کر رہی ہے یا اسرائیلی بیانیے کو فروغ دے رہی ہے۔ غزہ سے باہر آنے والی خبریں سوشل میڈیا، شہری صحافیوں اور چند آزاد اداروں کے توسط سے دنیا تک پہنچ رہی ہیں۔ فلسطینی صحافی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سچ دنیا کے سامنے لا رہے ہیں۔ درجنوں صحافی شہید ہو چکے ہیں، مگر دنیا اب بھی اس المیے کو ایک عام خبر کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
دنیا بھر میں عام لوگ، انسانی حقوق کے کارکن، طلبہ اور مذہبی و سماجی شخصیات غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ امریکہ، یورپ، مشرق وسطیٰ، اور ایشیا کے کئی شہروں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔ مگر صرف عوامی آواز کافی نہیں، جب تک حکومتیں اپنی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں کرتیں، فلسطین کا زخم ہرا ہی رہے گا۔
اقوام متحدہ اور بااثر عالمی طاقتوں کو جنگ بندی کے لیے فوری اقدام کرنا چاہیے۔ غزہ پر سے اسرائیلی محاصرہ ختم کیا جائے تاکہ امداد پہنچ سکے۔ اقوام متحدہ، ریڈ کراس، ہلال احمر، اور دیگر اداروں کو فوری رسائی دی جائے۔
بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں اسرائیلی جرائم پر مقدمات چلائے جائیں۔
غزہ آج ایک ایسا مقام ہے جہاں انسانیت سسک رہی ہے، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، مائیں اپنے لخت جگر کے لاشے اٹھا رہی ہیں اور دنیا خاموش ہے۔ اگر آج دنیا نے آواز نہ اٹھائی تو کل انسانیت کا جنازہ اٹھے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ انسانیت، ضمیر اور عدل کی بنیاد پر آواز بلند کی جائے، ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
Author
-
سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025بیورو چیف، پی این این، پشاور
جنوری 2023 تا جنوری 2024بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
16 فروری 2005 تا 21 جون 2008رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
فروری 2000 تا 30 نومبر 2003