Nigah

اپنے ہی شور میں گم بھارت۔

پاک بھارت ‏جنگ بندی ہو چکی ہے، توپیں خاموش ہو چکی ہیں، وہ بھارت جس کی فضائیں کل تک جنگی نعروں سے گونج رہی تھیں، آج جیسے کسی ماتم کدے کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ٹی وی اسکرینیں جن پر دن رات پاکستان کے خلاف زہر اگلا جاتا تھا، آج جیسے کسی سوگوار کی طرح خاموش ہیں۔ وہ اینکرز، وہ تجزیہ کار، وہ ہندوتوا کے مبلغ، سب کی زبانوں پر جیسے قفل پڑ گیا ہو۔ یہ خاموشی صرف شکست کی نہیں، یہ تکبر کے انہدام کی گواہی ہے۔ ایک ایسا غرور جو پاکستان کو کبھی برابری کا درجہ دینے کو تیار نہ تھا، آج زمیں بوس پڑا ہے۔ بھارت ہمیشہ سے اپنے سائز، معیشت اور عسکری طاقت کا سہارا لے کر خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا رہا، لیکن جب جنگ جذبے سے لڑی جائے تو اس کا انجام محض میز پر رکھے اعداد و شمار طے نہیں کرتے ، وہ دل طے کرتے ہیں جو دھڑکتے ہیں وطن کے لیے، وہ آنکھیں طے کرتی ہیں جو شہادت کے خواب دیکھتی ہیں، اور وہ ہاتھ جو دعا کے لیے اٹھتے ہیں، بندوق کے ساتھ ساتھ۔ پاکستان کی فتح صرف ایک محاذ پر کامیابی نہیں، یہ ایک بیانیے کی جیت ہے۔ ایک ایسا بیانیہ جو امن کا خواہاں بھی ہے اور عزت کا طلبگار بھی۔ ہم نے صرف سرحد نہیں بچائی، ہم نے اپنی خودداری، اپنے عزم اور اپنی وحدت کی حفاظت کی ہے۔
اور بھارت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
وہ اب اپنے ہی شور میں گم ہو چکا ہے، جہاں نہ کوئی نئی کہانی ہے، نہ کوئی نیا خواب۔ صرف سوالات ہیں، خالی نظریں اور وہ تکلیف دہ احساس جسے ہار کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ شاید وقتی تھی، مگر اس کا اثر دیرپا ہے۔ اب بھارت کو سوچنا ہوگا کہ کیا تکبر اور نفرت سے چلنے والی سیاست واقعی خطے کے لیے مفید ہے؟ یا وقت آ گیا ہے کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرے جسے وہ برسوں سے جھٹلاتا آیا ہے – پاکستان ایک زندہ، خوددار، اور ناقابلِ شکست قوم ہے۔ ہم نے جنگ نہیں مانگی، مگر جب مسلط کی گئی تو ہم نے دنیا کو دکھا دیا کہ ہم امن کے خواہاں ضرور ہیں، کمزور ہرگز نہیں-


خطے پر بھارتی بالادستی کا خواب کس بنیادی پر ! ۔
بھارت کی وجہ سے گزشتہ چند ہفتوں سے نہ صرف خطہ بلکہ پوری دنیا پریشان رہا ۔بھارتی قیادت کے پاگل پن کی وجہ سے دنیا خطرناک ترین جنگ کے قریب تر پہنچ گئی مگر پاکستان نے کمال مہارت سے اس جنگ کو روایتی ہتھیاروں سے رفع کرکے پوری دنیا کو یپ پیغام دیادی کہ بھارتی قیادت دنیا کو ہر وقت خطرناک گلی میں لے جانے کی کوششیں کرتے رہے جس کی وجہ سے صورتحال کسی بھی وقت بھیانک ہوسکتی ہے ۔ اس سلسلے میں پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے حالیہ انٹرویو میں اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ جنوبی ایشیا کا امن بھارت کی پالیسیوں کی بدولت مستقل خطرے سے دوچار ہے۔ بقول ان کے بھارت نہ اسرائیل ہے نہ پاکستان فلسطین نہایت اہم اور بروقت پیغام بھارت تک پہنچایاہے ،یہی نہیں کشمیر پر ماضی میں بھارت ثالثی پر سیخ پا ہوا کرتا تھا۔ پاکستان نے بھارت کو انہی سے سیز فاور کرانے پر مجبور کیا، پاک فوج کا یہ ردعمل علاقائی طاقتوں اور عالمی برادری کے لیے ایک واضح پیغام ہے ،کہ پاکستان بھارتی بالادستی کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔ اس انٹرویو میں دی گئی معلومات کے مطابق پاکستان میں جنوری 2024 سے اب تک 3700 سے زائد دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں ،جس میں تقریبا 3900 کے قریب پاکستانی شہری اور سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، ایک سنگین خطرے کی نشاندہی ہے۔ ان واقعات کی پشت پر مبینہ طور پر بھارتی معاونت کا الزام شواہد کے ساتھ مزید تشویش ناک ہے۔ علاوہ ازیں ملک میں موجود علیحدگی پسند تنظیموں کا بھارت سے کھلے عام مدد مانگنا اور بھارتی شخصیات کی جانب سے اس حمایت کی توثیق علاقائی خودمختاری اور استحکام کے لیے واضح خطرہ ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو جنوبی ایشیا ایک ایٹمی خطہ ہے جہاں معمولی اشتعال انگیزی بھی بڑے تصادم کو جنم دے سکتی ہے۔ جس کے اثرات اربوں انسانوں پر مرتب ہوسکتے ہیں ۔ڈی پاک فوج کے ترجمان کے اس بیان میں کہ بھارت کے پانچ جنگی طیارے، جن میں تین رافیل شامل تھے، پاکستان نے مار گرائے، جبکہ ایک جیگوار جنگی طیارہ بھی زمین بوس کیا گیا ۔ یہ محدود پیمانے کی خطرناک لڑائی ایسی صورت حال کو واضح کرتا ہے جو کسی بھی وقت مکمل جنگ میں بدل سکتی ہے۔ یہ صورت حال صرف پاکستان اور بھارت پر نہیں بلکہ عالمی امن اور ماحول پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ یہ وقت ایک آزمائش ہے، خاص طور پر جب کشمیر جیسا تنازع اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود حل طلب ہے۔ اور دونوں ممالک کے درمیان بین الاقوامی ضمانتوں میں ہونے والے معاہدے کی بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر منسوخ کرنا بنیادی مسئلہ ہے ۔پاکستان اور بھارت کے مابین دیرپا امن کا قیام صرف طاقت کے توازن سے نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر اور پانی معاہدوں پر عمل اور مسئلہ کشمیرکے منصفانہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق حل ہونا ضروری ہے۔ عالمی برادری خصوصا اقوام متحدہ، امریکا، چین، روس ،یورپی یونین ، جی ایٹ ، او آئی سی اور سارک جیسے فورمز کو اس طرف عملی پیش رفت کرنی چاہیے۔ بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ پاکستان پر اللہ پاک کی ایک بڑی مہربانی ہوئی ہے ، کیونکہ سیاسی معاملات میں اداروں کی مداخلت کی وجہ سے ریاستی ادارے انتہائی مقام تک پہنچ چکے تھے ، مگر بھارتی جارحیت نے صورتحال یکسر بدل دیہے ، ایسے میں اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئہ ریاستی اداروں کو ا ہر صورت اپنے دائروں میں رہنے کا عہد کرنا چاہیے ۔ کیونکہ یہ موقع اللہ پاک کی جانب سے ایک بہت بڑا انعام ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو داخلی سطح پر قومی یکجہتی، معاشی استحکام، اور سفارتی محاذ پر موثر و متحرک پالیسی اپنانی ہوگی، تاکہ عالمی سطح پر بھارتی پراپیگنڈے کا بھرپور اور موثر جواب دیا جا سکے۔ کیونکہ عالمی سطح پر پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی خودمختاری کا تحفظ کرنا جانتا ہے بلکہ ہر جارحیت کا موثر جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ بھارت اپنے جارحانہ عزائم ترک کتے ہوئے مسئلہ کشمیر، اور پانی کے تقسیم سمیت تمام معاملات کے حل کے لیے بامقصد مذاکرات کا سلسلہ جنگی بنیادوں پر شروع کرکے اس خطے کے انسانوں پر رحم کرے کیونکہ اس طرح کے رویے کی وجہ سے خطے کے عوام کے خون پسینے کی کمائی وار انڈسٹری کی نذر ہوجاتا ہے ۔ لہذا بات چیت اور بین الاقوامی اصولوں کو اپناتے ہوئے دونوں ممالک خطے میں تجارت کے لئے راستے کھولے، جس سے جنوبی ایشیا سینٹرل ایشا۔ فارایسٹ ،خلیجی ممالک سمیت افریقی ممالک کو بھی فائدہ پہنچ سکے گا ، یعنی پاکستان اور بھارت نئی پرامن، مستحکم اور ترقی یافتہ دنیا کے خوابوں کا مرکز بن سکتا ہے۔

Author

  • ڈاکٹر سید حمزہ حسیب شاہ ایک تنقیدی مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایشیا اور جغرافیائی سیاست پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں اور علمی اور پالیسی مباحثوں میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔