بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے تنازعات، بداعتمادی اور کشیدگی کا شکار رہے ہیں۔ ان تنازعات میں جہاں کشمیر، دہشتگردی اور سرحدی جھڑپیں شامل ہیں، وہیں ایک اور نہایت اہم مگر نسبتاً کم توجہ حاصل کرنے والا مسئلہ پانی کا تنازعہ ہے۔پہلگام واقعہ کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کے لیے بہنے والے دریاؤں کے پانی کو روکنے کی دھمکی اور سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے جیسے اعلانات، محض سیاسی یا سفارتی چالیں نہیں بلکہ ایک باقاعدہ آبی جارحیت ہیں جو پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکی ہیں۔
پہلگام میں ہونے والے واقعے کے بعد، جسے بھارت کی حکومت اور میڈیا نے حسبِ معمول پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کی، مودی سرکار نے ایک بار پھر جنگی بیانات دینا شروع کر دیے۔ مگر اس بار روایتی حملوں کی دھمکیوں کے بجائے پانی روکنے جیسے ماحولیاتی اور انسانی ہتھیار کا استعمال کیا گیا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ وہ پاکستان کو پانی نہیں دیں گے۔
یہ صرف بیان بازی نہیں بلکہ انتہائی خطرناک اقدام ہے، جس کے اثرات صرف سیاسی یا فوجی نہیں بلکہ معاشی، زرعی، ماحولیاتی اور انسانی سطح پر تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ دھمکی ایک کھلی دشمنی اور جنگی حکمت عملی کے مترادف ہے۔
1960 میں عالمی بینک کی ثالثی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریا (راوی، ستلج، بیاس) بھارت کے حصے میں آئے جبکہ تین مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) پاکستان کو دیے گئے۔یہ معاہدہ اب تک دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا واحد قانونی اور عالمی طور پر تسلیم شدہ فریم ورک ہے۔ اس معاہدے کی بدولت پاکستان کی زراعت، توانائی اور زندگی کا نظام جاری رہا۔ مگر اب بھارت اس معاہدے کو ختم یا معطل کرنے کی بات کر رہا ہے، جو بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور عالمی امن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
بی جے پی اور نریندر مودی کی حکومت نے بھارت میں انتہا پسندی، تعصب اور مسلم دشمنی کو اپنے سیاسی بیانیے کا حصہ بنا رکھا ہے۔ پاکستان دشمنی ان کا مستقل نعرہ ہے اور اب انہوں نے پانی جیسے بنیادی انسانی حق کو بھی اپنے مذموم عزائم کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔بھارت پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو پیاس، قحط، اور بیماریوں کا شکار بنا کر پاکستان کی زرعی معیشت کو مفلوج کرنا چاہتا ہے ۔یہ پاکستان کو سیاسی و معاشی دباؤ میں لانے کی کوشش ہے۔
یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود ہو رہا ہے کہ پانی روکنا جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی ملک کو پانی سے محروم کرنا انسانیت کے خلاف جرم شمار ہوتا ہے۔
پاکستان کی حکومت نے بھارت کی آبی جارحیت اور معاہدے کی ممکنہ معطلی پر سخت ردعمل دیا ہے۔ وزارت خارجہ، آبی کمیشن اور وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیانات میں واضح کہا گیا ہے کہ اگر بھارت نے دریاؤں کا پانی روکا، تو اسے "اعلانِ جنگ” تصور کیا جائے گا۔
یہ مؤقف اس حقیقت پر مبنی ہے کہ پاکستان کے دریاؤں میں آنے والا پانی اس کے وجود، بقا اور معیشت کے لیے ناگزیر ہے۔ پانی کی بندش کا مطلب ہے لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہو جانا،فصلوں کی تباہی،بجلی کی قلت،روزگار اور خوراک کی کمی۔
پاکستان کسی صورت میں یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لیے یہ صرف پانی کا مسئلہ نہیں بلکہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔
بھارت کے یہ اقدامات سندھ طاس معاہدے ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے کنونشن برائے بین الاقوامی آبی راستے 1997کی بھی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
بین الاقوامی انسانی قوانین جنگ کے دوران بھی آبی وسائل کی تباہی کو جرم قرار دیتے ہیں۔ اس کے باوجود بھارت دنیا کے سامنے "سب سے بڑی جمہوریت کا علمبردار بننے کی کوشش کرتا ہے۔ حقیقت میں وہ پانی کو سیاسی اور جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ، عالمی بینک، یورپی یونین ، او آئی سی اور دیگر طاقتور ادارے اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لیں۔ اگر بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی جاری رکھی تو پورا جنوبی ایشیا ایک ماحولیاتی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔اور امن کے خواب خاک میں مل سکتے ہیں۔پانی کی جنگ صرف دو ممالک کے درمیان مسئلہ نہیں، بلکہ یہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔
پاکستان کو فوری طور پر سفارتی محاذ پر مکمل مہم چلانی چاہیے خاص طور پر اقوام متحدہ میں۔
اس سے ساتھ ستھ عالمی میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے بھارتی جارحیت کو بے نقاب کیا جائے۔ آبی سفارت کاری کو قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بنایا جائے۔بھارت کے خلاف عالمی عدالتوں میں مقدمات دائر کیے جائیں۔
بھارت کی آبی جارحیت اور سندھ طاس معاہدے کی ممکنہ معطلی صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک ایسا انسانی، اخلاقی اور قانونی بحران ہے جو اگر روکا نہ گیا تو خطے میں تباہی پھیل سکتی ہے۔ پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ پانی روکنے کو اعلان جنگ سمجھا جائے گا، اور یہ بات بین الاقوامی برادری کے لیے ایک ویک اپ کال ہونی چاہیے۔
پانی زندگی ہے، اور جو ممالک اسے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں وہ امن، ترقی اور انسانیت کے دشمن ہیں۔ عالمی برادری کو اب خاموش نہیں رہنا چاہیے۔
Author
-
سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025بیورو چیف، پی این این، پشاور
جنوری 2023 تا جنوری 2024بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
16 فروری 2005 تا 21 جون 2008رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
فروری 2000 تا 30 نومبر 2003