بھارت دنیا کا ایسا ملک ہے جس نے خطہ کا تھانیدار بننے کی خاطر اپنے تمام ہمسایہ مالک سے تعلقات کشیدہ کر رکھے ہیں
اور جنوبی ایشیا کے نقشے میں کوئی ملک نہیں جس کا بھارت سے کوئی تنازع نہ ہو۔ یہ سب اس کی خودسری اور ہٹ دھرمی کے پیدا کردہ ہیں۔ ان میں آبی اور سرحدی تنازعات نمایاں ہیں ان ملکوں میں عالمی معیشت کا کنگ چین ہو یا مالدیب اور بھوٹان کی طرح چھوٹے ملک، بھارت کے کسی سے بھی تعلقات نارمل نہیں۔
پاکستان تو روائتی طور پر حریف ہی ہے۔ ںھارت اور پاکستان کے درمیان سب سے ںڑا تنازعہ کشمیر کا ہے۔ جو 1947 سے حل طلب ہے۔ اسی پر دونوں کے درمیان کئی جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ اس کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد کے ذریعے کشمیر یوں کو استصواب رائے کا حق دیا ہے لیکن بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 75 سال سے کشمیریوں کو ان کا حق نہیں دیا بلکہ مقبوضہ کشمیر میں اٹھ لاکھ فوج تعینات کر کے کشمیریوں پر ظلم ڈھا رہا ہے ۔
سر کریک جو بحیرہ عرب میں واقع ایک کم آبادی والا مگر اسٹریٹجک علاقہ ہے اس پر بھی بھارت نے روائتی ہٹ دھرمی جاری رکھی ہوئی ہے۔
پانی کے تنازع کے تنا ظر میں 1960 میں دونوں ملکوں کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا لیکن انڈیا گاہے بگاہے آبی جارحیت کا ارتکاب کرتا رہتاہے اور حال ہی میں پہلگام کے فالس فلیگ اپریشن کی آڑ میں سندھ طاس معاہدہ کو غیر قانونی طور پر معطل کر دیا۔
بھارت نے چین کے ساتھ لداخ اور ارونا چل پردیش پر سینگ اڑائے رکھے ہیں۔ڈو کلام پر بھوٹان کے ساتھ سرحدی جھگڑا ہے 2017 میں کشیدگی عروج پر رہی،2020 میں گلوان وادی میں جھڑپوں کے دوران جانی نقصان سے کشیدگی مزید بڑھ گئی، اسی طرح نیپال کے تین علاقوں کالا پانی، لیپولیخ، لمپیا دھورا پر بھارت نے قبضہ کر رکھا ہے حالانکہ جغرافیائی اور تاریخی لحاظ سے یہ علاقے نیپال کا حصہ ہیں۔
دریائے تیستا کے پانی کی تقسیم پر بنگلہ دیش سے تنازع چل رہا ہے بارڈر پر فائرنگ، سمگلنگ اور بنگلہ دیش کو اپنی کالونی بنانے کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں گزشتہ سال بنگلہ دیشی عوام نے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی بھارت نوازی سے تنگ آ کر ان کا تختہ الٹ دیا۔
ایک اور ہمسایہ ملک سری لنکا سے بھی انڈیا کے تعلقات خوشگوار نہیں رہے۔ سری لنکا کی علیدگی پسند تنظیم تامل ناڈو کو بھارت نے عسکری تربیت اور مالی امداد کے ذریعے کئی دہائیوں تک سری لنکا میں حالات شورش زدہ رکھے۔ اس کے علاوہ سری لنکا اور انڈیا کے درمیان مائی گیری پر بھی تنائو پایا جاتا ہے۔ مالدیپ میں بھی بھارت کے لیے کوئی اچھے جذبات نہیں پائے جاتے معاشی لحاظ سے کمزور ہونے کی بنا پر مالدیپ بھارت سے براہ راست ٹکر لینے سے گریزاں ہے۔
برصغیر پاک و ہند کے کی تقسیم کے بعد سے بھارت نے اقلیتوں پر خصوصا مسلمانوں پر ظلم ڈھائے، کشمیر سمیت زبردستی مسلم ریاستوں پر قبضہ کیا تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق آزاد ریاستوں کے حکمرانوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں اپنی مرضی سے شامل ہو سکتے ہیں یا آزاد رہ سکتے ہیں چنانچہ متعدد ریاستوں کے حکمرانوں نے بھارت اور پاکستان کے ساتھ الحاق کیا جونا گڑھ اور حیدراباد دکن کے مسلم حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا لیکن بھارتی نے ان ریاستوں پر غاصبانہ
قبضہ کر رکھا ہے جو تقسیم ہند کے فارمولے اور عالمی اداروں کے قوانین کے یکسر منافی ہے اسی طرح بھارت میں عیسائی،سکھ،نچلی ذات کے ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کی زندگی محفوظ نہیں، چنانچہ
بھارت کے حاکمانہ رویئے سے تنگ آکر اور اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے انڈیا سے علیحدگی کی تحریکیں عروج پر ہیں۔
بھارت نے خطے میں سپر پاور بننے کا کہ جو خواب دیکھ رکھا تھا وہ پاکستان نے آپریشن بنیان مرصوص کے ذریعے خاک میں ملادیا۔اسکی تمام خواہشوں پر پانی پھیر دیا۔ اب وہ کئی سالوں تک سر نہیں اٹھا سکے گا۔
بھارت کا آزاد میڈیا اور مستند صحافیوں،اپوزیشن جماعتوں خصوصا کانگرس نے آپریشن سندور کی نہ صرف ناکامی کو تسلیم کیا بلکہ نریندر مودی کے شائننگ انڈیا کے دعوئوں کو بھی بے نقاب کر دیا نریندر مودی نے ریاستی انتخابات جیتنے کے لیے پہلگام کا جو ڈرامہ رچایا وہ خود اس کے گلے پڑ چکا ہے اب وہ بھارتی عوام کو تسلی دینے کے لیے
جھوٹ کا سہارا لے رہا ہے۔
انڈیا کے توسیح پسندانہ عزائم کے سبب پاک بھارت کشیدگی کے دوران کسی ہمسائے ملک نے بھارت کا ساتھ نہ دیا ان تمام ہمسائے ممالک کی ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ رہیں۔ بلکہ چین نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا اور چین کے جے 10 تھنڈر نے بھارت کی شکست کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکی۔
آپریشن بنیان مرصوص میں فتح پاکستان کی آزاد اور احترام پر مبنی خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے۔ آپریشن سندور کی ناکامی کے بعد بھارتی انتہا پسند لیڈرشپ کو چاہیے کہ وہ ہمسائے ممالک سے تعلقات بہتر بنائے جموں وکشمیر پر غاصبانہ قبضہ سمیت دیگر سرحدی اور آبی تنازعات حل کرنے کے لیے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ باہمی احترام کے ذریعے سنجیدہ کوششیں کرے۔
Author
-
ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:
View all posts