اسلامی معاشروں میں عید قربان کو ایک اہم ترین تہوار اور مزہبی فریضے کی حیثیت حاصل ہے- جو قربانی، ایثار اور اللہ کی رضا کے لیے جانوروں کی قربانی کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن پاکستانی معاشرے میں، خاص طور پر متوسط اور غریب طبقے کے لیے، یہ تہوار کئی مسائل اور المیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مزہبی فریضے سے ہٹ کر اسے سماجی رتبے کی علامت بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے غریب لوگ بھی قرض لے کر یا اپنی بنیادی ضروریات کو نظر انداز کر کے جانور خریدتے ہیں- ہر سال جانوروں کی قیمتیں بڑھ جانے سے غریب گھرانوں کے لیے قربانی کرنا مشکل ہو ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو گیا ہے
امیر طبقہ مہنگے جانور خرید کر سماجی حیثیت کا مظاہرہ کرتا ہے جبکہ غریب لوگ چھوٹی قربانی پر مجبور ہوتے ہیں۔ جو غریب اور متوسط طبقہ اور مہنگائی کے مارے ہوئے لوگ قربانی نہیں کر پاتے، انہیں معاشرے میں کمتر سمجھا جاتا ہے، جس سے ان کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے
. گوشت کی غیر منصفانہ تقسیم
قربانی کے گوشت کی غریبوں،ناداروں اور معاشی طور پر کمزور طبقوں میں تقسیم بہت عظیم اور اعلی روایت ہے لیکن افسوس ہمارے ہاں قربانی کا گوشت اکثر امیر گھرانوں، رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم ہوتا ہے اورگھروں میں فریجز اور فریزر گوشت سے بھرےںہوتے ہیں، جبکہ غریب اور مستحق افراد تک گوشت بہت کم پہنچتا ہے
کئی علاقوں میں گوشت کی مناسب تقسیم نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے ضرورت مندوں کو فائدہ نہیں ملتا۔ بعض علاقوں میں گوشت سیاسی یا ذات پات اور رشتے داری کی بنیاد پر تقسیم ہوتا ہے۔ غریب افراد کو اکثر معیاری گوشت نہیں ملتا، بلکہ امیروں کے گھروں سے بچا ہوا یا کمزور حصہ دیا جاتا ہے۔
عید قربان پر میڈیا کا کردار
عید قربان پاکستان میں ایک اہم مذہبی تہوار ہے جو قربانی، ایثار اور غریبوں کی مدد کی یاد دلاتا ہے۔ تاہم، غربت اور میڈیا کے رویے کے باعث اس موقع پر کئی سماجی اور معاشی مسائل بھی سامنے آتے ہیں۔
پاکستان میں ایک بڑی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتی ہے، جہاں لوگوں کے لیے بنیادی ضروریات پوری کرنا مشکل ہوتا ہے۔ دوسری طرف، امیر طبقہ لاکھوں روپے کی مالیت والے جانور خریدتا ہے، جس سے معاشرے میں اقتصادی تفاوت واضح ہوتا ہے۔
غریب اور متوسط طبقہ کے افراد اکثر چھوٹے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں یا کسی کے ساتھ "شراکت” میں حصہ ڈالتے ہیں، کچھ میڈیا چینلز اور اخبارات قربانی کے گوشت کی منصفانہ تقسیم کے لیے مہم چلاتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر غریبوں اور یتیم خانوں تک گوشت پہنچانے کی کوششوں کو نمایاں کیا جاتا ہے جس میں لوگوں کو غریبوں کی مدد کی ترغیب دی جاتی ہے ۔
میڈیا اکثر مہنگے ترین جانوروں کی نمائش کرتا ہے، جس سے معاشرے میں دکھاوے کی ثقافت کو فروغ ملتا ہے
اسلامی عبادات میں دکھاوا اسلام کی رو سے ناپسندیدہ عمل کہا گیا ہے ٹی وی چینلز اور یوٹیوب پر "مہنگے دنبے کی خریداری” والی ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں، جو غریب اور متوسط طبقے کے لیے مایوسی کا سبب بنتی ہیں۔ کچھ میڈیا رپورٹس میں قربانی کے جانوروں کی بے حرمتی یا غیر صحت مندانہ صورتحال کو سنسنی خیز طریقے سے پیش کیا جاتا ہے، جس سے عید قربان کے عظیم تہوار کی روح مجروح ہوتی ہے۔
حکومتی اقدامات
قربانی کے جانوروں کی قیمتوں پر کنٹرول۔
کچرے کے انتظام کے لیے عید پر خصوصی مہم۔
جانور پالنے والے غریب مزدوروں اور کسانوں کے لیے مالی مدد۔
امیر علاقوں سے تو حکومتی ادارے آلائیشیں فورا” اٹھا لیتے ہیں جبکہ بعض علاقوں میں کچرے کے ڈھیر لگ جاتے ہیں، جس سے بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے کئی علاقوں اور جگہوں پر خون اور فضلہ نالوں میں بہہ جاتا ہے، جس سے پانی آلودہ ہو جاتا ہے
قارئین محترم ا
مناسب ہوگا کہ غریب لوگ مل کر ایک بڑی قربانی کا اہتمام کریں جس کو آج کل اجتماعی قربانی بھی کہا جاتا ہے تاکہ مالی بوجھ کم ہو۔
زیادہ سے زیادہ گوشت غریبوں، یتیم خانوں اور ضرورت مندوں تک پہنچایا جائے۔
اگر کوئی قربانی نہیں کر سکتا، تو وہ رقم غریبوں میں بانٹ سکتا ہے۔
حکومت اور این جی اوز کو چاہیئے کہ قربانی کے گوشت کو غریبوں تک مؤثر طریقے سے پہنچانے کے لیے نظام بنائیں۔
ہمیں قربانی کی اصل روح کو سمجھنا ہوگا اور اسے ایک "سٹیٹس سمبل” بنانا ہوگا ۔
علماء کرام کو چاہیئے کہ قربانی کے پیغام کو عام کریں اور اسراف سے بچنے کی تلقین کریں۔
حاصل بحث یہ ہے کہ
عید قربان کا مقصد اللہ کی رضا کے لیے قربانی دینا اور غریبوں کی مدد کرنا ہے، لیکن معاشی تفاوت اور میڈیا کی نمائشی رپورٹنگ نے اس کی روح کو متاثر کیا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس تہوار کو ایک سماجی فلاح کے طور پر استعمال کریں نہ کہ امیر اور غریب کے درمیان فاصلے بڑھانے کا ذریعہ بنائیں-
Author
-
مصنف ایک معزز میڈیا پیشہ ور ہیں جو نیشنل نیوز چینل ایچ ڈی کے چیف ایگزیکٹو اور "دی فرنٹیئر انٹرپشن رپورٹ" کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ان سے پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔
View all posts