دہشت گردی پاکستان کے لیے کوئی نیا چیلنج نہیں۔ اس ملک نے گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف نہ صرف ایک طویل جنگ لڑی بلکہ اس میں ناقابلِ بیان قربانیاں بھی دیں۔ تقریبا 90 ہزار پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے افسروں، جوانوں اور شہریوں نے جام شہادت نوش کیا اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کیا۔
داعش خیبرپختونخوا (ISKP) اور بلوچ لبریشن آرمی (BLA) جیسے گروہوں کی باہمی جھڑپوں کو کچھ حلقے اسے ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھنے کی غلطی کرتے ہیں، لیکن ریاست پاکستان اسے محض ایک افراتفری کے مظہر کے طور پر دیکھتی ہے،
ریاست کا عزم و حوصلہ اور حکمت عملی ان کے ناپاک ارادوں میں حائل ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ
دونوں تنظیمیں بیرونی ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں، بی ایل اے براہ راست بھارت کی پراکسی ہے، اور یہ گٹھ جوڑ جعفر ایکسپریس کے مسافروں کو یرغمال بنانے، مخصوص علاقے کے شہریوں اور سکیورٹی ادارے کے اہلکاروں کو شہید کرنے سے مزید پختہ ہوگیا۔ جعفر ایکسپریس کے مسافروں کی بازیابی کے لئے پاک فوج کے آپریشن میں دو انڈین فوجی افسروں کی ہلاکت کی بھی خبریں منظر عام پر آئیں لیکن بی ایل اے کی بغل بچہ تنظیم کی سربراہ ماہرنگ بلوچ نے دہشگردوں کی لاشوں کے لئے خواتین کے ساتھ دھرنے دیا تاکہ ان شناخت نہ ہو سکے۔ بھارتی فوج کا ایک بھگوڑا میجر اپنے وی لاگز اور ٹی وی پروگراموں میں بی ایل اے سے بھارت کے رابطوں اور سپورٹ کا کھل کر اعتراف کرتاہے۔
داعش خیبر پختونخوا اور بی ایل اے بظاہر دو مختلف نظریات اور اہداف کے حامل گروہ ہیں۔ ایک مذہبی شدت پسندی کو بنیاد بنا کر دہشت گردی کو جواز دیتا ہے تو دوسرا لسانی و علاقائی بنیادوں پر ریاست کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتا ہے۔ تاہم ان کے اہداف میں بنیادی مماثلت پائی جاتی ہے: پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانا۔ ان گروہوں کے درمیان حالیہ جھڑپیں ان کی باہمی دشمنی کا اظہار ضرور کرتی ہیں، مگر یہ کسی بھی لحاظ سے پاکستان کے لیے "راحت” یا "موقع” نہیں۔ ریاست کے لیے یہ اس امر کی یاد دہانی ہے کہ دشمن ایک نہیں بلکہ کئی روپ دھارے ہوئے ہیں، اور ہر روپ پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ داعش خیبر پختونخوا مذہب کے نام پر معصوم افراد کی جانیں لیتا ہے اور اپنے نظریے کو دوسروں پر بزورِ طاقت مسلط کرنا چاہتا ہے، جبکہ بی ایل اے بھارتی سرپرستی میں علیحدگی کے نعرے کے پیچھے چھپ کر ریاست پاکستان پر حملے کرتی ہے۔ یہ دونوں گروہ بظاہر مختلف نظریات کے حامل ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا مشترکہ ہدف صرف پاکستان کی خودمختاری کو نقصان پہنچانا ہے۔
بعض مبصرین کے مطابق داعش خیبر پختونخوا اور بی ایل اے جیسے گروہوں کی باہمی چپقلش ان کی کمزوری کی علامت ہے۔ مگر درحقیقت، یہ داخلی جھگڑے ان کے غیر مستحکم، بے لچک اور پرتشدد طرزِ فکر کو ظاہر کرتے ہیں۔ان کی لڑائیاں کسی اصول یا نظریے کی بنیاد پر نہیں، بلکہ طاقت کے حصول، اثرورسوخ کی توسیع اور اپنی "برتری” ثابت کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ ان کی کشمکش ایک بار پھر ثابت کرتی ہے کہ ان کے نزدیک انسانی جان، امن، قانون اور ریاستی نظم کی کوئی اہمیت نہیں۔ پاکستان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے اور ان جھڑپوں کو نظر انداز کر کے خود کو دھوکے میں نہیں رکھتا۔
ریاست پاکستان ان کے مقاصد میں اس فرق کو بنیاد بنا کر کوئی امتیاز روا نہیں رکھتی۔
پاکستان کی بنیاد ایک نظریے پر رکھی گئی تھی یعنی اسلام کے نام پر ایک الگ ریاست، جو امن، بھائی چارے، اتحاد اور مساوات پرقائم ہو۔داعش خیبرپختونخوا اور بی ایل اے دونوں اس نظریے کو اپنے عمل، بیانیے اور حملوں کے ذریعے کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی لڑائیاں ریاست کے تئیں ان کی دشمنی کو کم نہیں کرتیں، بلکہ اس کی شدت کو ظاہر کرتی ہیں۔ پاکستان ان نظریاتی اور آئینی حدود پر کسی قسم کی مصلحت یا نرمی کا قائل نہیں۔ ریاست اپنی اساس، اقدار اور سرحدوں کے دفاع کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کو تیار ہے۔
ان دہشت گرد گروہوں کے باہمی اختلافات ریاست کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں لاتے۔ پاکستان اپنی سیکورٹی پالیسی ان گروہوں کے باہمی تنازعات پر نہیں بلکہ اپنے قومی مفادات، ملک کی سلامتی اور آئینی ڈھانچے کے تحفظ پر مرتب کرتا ہے۔ ریاست کا رویہ صرف "ردعمل” پر مبنی نہیں بلکہ مکمل طور پر فعال ہے۔ دہشت گردی کی روک تھام، ان کے نیٹ ورکس کی نشاندہی، ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی، اور ہر ممکن سطح پر مؤثر اقدامات ریاستی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔
داعش خیبر پختونخوا اور بی ایل اے کے درمیان لڑائی کو کچھ حلقے اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے یہ دہشت گردی کے خلاف خودبخود ہونے والی پیش رفت ہو۔ مگر درحقیقت یہ محض افراتفری ہے جو خود کو ہی نگلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسی افراتفری میں سب سے زیادہ نقصان انہی معصوم شہریوں کو ہوتا ہے جو ان دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ ریاست ان گروہوں کو ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے "چھوٹ” دے کر خود کو پیچھے نہیں ہٹاتی، بلکہ ان کے ہر ممکن اثر کو ختم کرنے کے لیے ہمہ وقت سرگرم ہے۔ پاکستان نہ تو دشمنوں کے درمیان کسی ایک فریق کا ساتھ دیتا ہے، نہ ہی کسی بھی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ مفاہمت کا سوچتا ہے۔ ریاست کے لیے ہر ایسا گروہ جو پاکستان کے آئین، سلامتی، اتحاد اور امن کے خلاف ہو، یکساں طور پر ناقابل قبول ہے۔ چاہے داعش خیبرپختونخوا ہو یا بی ایل اے، ان کے بیانیے اور حربے مختلف سہی، لیکن ان کا ایجنڈا ایک ہے: پاکستان کو نقصان پہنچانا۔ اور ریاست ان کے اس ایجنڈے کے سامنے پوری طاقت، بصیرت اور اتحاد کے ساتھ کھڑی ہے۔
پاکستان کو درپیش یہ چیلنج کسی ایک ادارے یا طبقے کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہے۔ اس کا حل بھی ایک جامع، مربوط اور قومی سطح پر مربوط حکمت عملی میں مضمر ہے۔ انٹیلیجنس اداروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ، پارلیمنٹ اور عوام سب کو مل کر اس خطرے کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہر اُس نظریے کو رد کرنا ہوگا جو شدت پسندی کو فروغ دے، ہر اُس عمل کو روکنا ہوگا جو ریاست کے خلاف ہو، اور ہر اُس سازش کو بے نقاب کرنا ہوگا جو ملک کی سالمیت کو کمزور کرنے کی کوشش کرے۔
داعش خیبر پختونخوا اور بی ایل اے جیسے گروہوں کی باہمی دشمنی پاکستان کے لیے وقتی سکون نہیں بلکہ ایک مستقل انتباہ ہے۔ ان کے وجود کا مطلب ہے خطرہ، انتشار، اور امن کے خلاف سازش۔ ریاست پاکستان نے بارہا واضح کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو کسی بھی شکل یا نام کی بنیاد پر نہیں روکتی۔ یہ لڑائی صرف اس وقت ختم ہوگی جب آخری دہشت گرد کو قانون کے شکنجے میں لا کر بے اثر کر دیا جائے گا۔ اور یہی وہ عزم ہے جو پاکستان کو ایک پرامن، مضبوط اور متحد ریاست بناتا ہے۔
Author
-
ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:
View all posts