Nigah

پاکستان میں کم عمری کی شادیوں پر قانون سازی: ایک مثبت پیش رفت

پاکستان نے حال ہی میں کم عمری کی شادیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے ایک اہم قانون سازی کی ہے جو نہ صرف خواتین کے حقوق کے تحفظ کی جانب عملی قدم ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اسے مثبت پیش رفت کے طور پر سراہا جا رہا ہے۔ "دی گارڈین” جیسے معتبر بین الاقوامی جریدوں نے اس اقدام کو امید کی کرن قرار دیا ہے۔خاص طور پر ایسے وقت میں جب دنیا کے مختلف حصوں میں خواتین کے حقوق محدود کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان کا یہ فیصلہ عالمی سطح پر ایک علامتی اور عملی پیغام کے طور پر ابھرا ہے کہ صنفی مساوات کی جدوجہد میں ترقی پذیر ممالک بھی مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف قانون سازی ایک دیرینہ مطالبہ تھا، جس کے لیے کئی دہائیوں سے سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے کارکنان اور خواتین کے حقوق کی تنظیمیں آواز بلند کر رہی تھیں۔ حالیہ قانون کے تحت شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے، جو پہلے بعض صوبوں میں صرف 16 سال تھی۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد اب ملک بھر میں کم عمر بچیوں کی شادی کو جرم قرار دیا گیا ہے، جس کی خلاف ورزی پر سخت سزا اور جرمانے بھی تجویز کیے گئے ہیں۔
یہ قانون نہ صرف قانونی ضابطہ ہے بلکہ ایک سماجی شعور کی بھی عکاسی کرتا ہے جو بچیوں کو بچپن، تعلیم اور خودمختاری کا حق دینے پر زور دیتا ہے۔
اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں خواتین کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔ تعلیم، صحت، تولیدی حقوق، اور آزادی رائے جیسے بنیادی حقوق پر قدغنیں عائد کی جا رہی ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کی جانب سے کم عمری کی شادیوں پر پابندی اہم اور مثبت مثال کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اس فیصلے نے نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونی دنیا میں بھی پاکستان کے امیج کو بہتر بنایا ہے۔
کم عمری کی شادی نہ صرف بچیوں کی تعلیم اور صحت پر منفی اثر ڈالتی ہے بلکہ یہ ان کے معاشی مستقبل کو بھی محدود کر دیتی ہے۔ تحقیق سے ثابت ہے کہ جو لڑکیاں کم عمر میں شادی کرتی ہیں، وہ عموماً اسکول چھو ڑ دیتی ہیں، جلد ماں بن جاتی ہیں اور اکثر گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔
نئے قانون سے نہ صرف ان منفی رجحانات کی حوصلہ شکنی ہوگی بلکہ لڑکیوں کو تعلیم مکمل کرنے، ہنر سیکھنے اور خودمختار زندگی گزارنے کا موقع بھی ملے گا۔ اس سے نہ صرف خواتین کی فلاح و بہبود بہتر ہوگی بلکہ معاشرتی ترقی، معاشی بہتری اور صنفی برابری کے اہداف کے حصول میں بھی مدد ملے گی۔
یہ قانون صرف کاغذ پر نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس کے مؤثر نفاذ کے لیے عوامی شعور اجاگر کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں آج بھی کم عمری کی شادی ایک روایت سمجھی جاتی ہے۔ جس کے پیچھے مذہبی، معاشرتی، اور معاشی وجوہات موجود ہیں۔ ان روایات کو توڑنے کے لیے میڈیا، اسکولوں، مساجد اور مقامی سطح پر لیڈرز کا فعال کردار ناگزیر ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں آگاہی مہمات کے ذریعے عوام کو قائل کیا جا سکتا ہے کہ بچیوں کی تعلیم اور صحت ہی ان کا اصل سرمایہ ہے۔
اکثر کم عمری کی شادیوں کے حق میں مذہبی دلائل دیے جاتے ہیں، حالانکہ کئی علمائے کرام واضح کر چکے ہیں کہ اسلام میں نکاح کے لیے بلوغت اور رضامندی لازمی شرائط ہیں نہ کہ صرف عمر۔ قرآن و سنت میں کم عمری کی شادی کو نہ تو لازم قرار دیا گیا ہے اور نہ ہی اسے ترجیح دی گئی ہے۔ ریاست کو حق حاصل ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے عمر کی حد مقرر کرے۔ اسی بنیاد پر قانون سازی کی گئی ہے تاکہ بچوں کا بچپن محفوظ بنایا جا سکے۔
یہ قانون سازی اچانک نہیں ہوئی، بلکہ اس کے پیچھے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی سالہا سال کی محنت اور تحریک شامل ہے۔ سینکڑوں انسانی حقوق کے کارکن، وکلاء، صحافیوں اور اراکین اسمبلی وقتا فوقتا آواز اٹھاتے رہے کہایسی قانون سازی کی جائے جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات سے ہم آہنگ ہو۔ ان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان میں بچیوں کے بچپن کو بچانے کے لیے باقاعدہ قانون نافذ ہو چکا ہے۔
کم عمری کی شادیوں کے خلاف قانون سازی نہ صرف ایک سنگ میل ہے بلکہ یہ مستقبل میں مزید اصلاحات کی راہ بھی ہموار کرے گی۔ گھریلو تشدد، وراثتی حقوق، تولیدی صحت اور خواتین کی ملازمتوں میں مساوی مواقع جیسے دیگر اہم مسائل پر بھی اب توجہ دی جا سکتی ہے۔ اس قانون نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں صنفی انصاف کے لیے قانون سازی ممکن ہے چاہے سماج کتنا ہی قدامت پسند کیوں نہ ہو۔
اگرچہ اس قانون کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ہے، لیکن اندرون ملک اس پر کچھ حلقوں کی طرف سے تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ بعض مذہبی اور قدامت پسند حلقے اسے مغرب زدہ قانون قرار دے کر مسترد کر رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہ قانون "روایتی خاندانی نظام” کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ تاہم حکومت اور سول سوسائٹی کو چاہیے کہ وہ ایسے اعتراضات کا منطقی اور شائستہ انداز میں جواب دے تاکہ قانون کو قبولیت حاصل ہو۔
قانون سازی کے بعد اصل چیلنج اس پر عملدرآمد ہے۔ پاکستان میں اکثر قوانین سیاسی دباؤ، کرپشن اور ادارہ جاتی کمزوریوں کی وجہ سے غیر مؤثر ہو جاتے ہیں۔ اس قانون کے مؤثر نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ مقامی سطح پر نکاح رجسٹریشن کو سختی سے نافذ کیا جائے، پولیس کو تربیت دی جائے اور ضلعی سطح پر نگرانی کا نظام قائم کیا جائے۔
کم عمری کی شادی کے خلاف پاکستان کی حالیہ قانون سازی یقیناً ایک تاریخی اقدام ہے جو بچیوں کو تعلیم، صحت اور بااختیار زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے۔ یہ قانون صرف ایک ضابطہ نہیں بلکہ عہد ہے کہ پاکستان اب اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے سنجیدہ ہے۔ اگر اس قانون پر مؤثر عملدرآمد کیا گیا تو یہ نہ صرف لاکھوں بچیوں کی زندگیاں بدل دے گا بلکہ پاکستان کو ایک منصفانہ، تعلیم یافتہ اور مہذب معاشرے کی طرف لے جائے گا۔

Author

  • سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
    یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025

    بیورو چیف، پی این این، پشاور
    جنوری 2023 تا جنوری 2024

    بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
    16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023

    سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
    22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017

    سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
    16 فروری 2005 تا 21 جون 2008

    رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
    یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005

    رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
    فروری 2000 تا 30 نومبر 2003

     

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔