پاکستان آج بھی دہشت گردی کے خلاف اپنے غیر متزلزل عزم کے ساتھ کھڑا ہے۔ داعش خراسان اور بلوچستان لبریشن آرمی جیسے گروہوں کے درمیان حالیہ جھڑپیں اور اختلافات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ گروہ نہ صرف پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ان کے باہمی جھگڑے خود ان کے تباہ کن ایجنڈے کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان گروہوں کے درمیان دشمنی پاکستان کے لیے خوشی کی خبر نہیں بلکہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ یہ سب ریاست دشمنی کے مشترکہ ایجنڈے پر کاربند ہیں۔ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی پختہ سوچ اور حکمت عملی پر قائم ہے، چاہے دہشت گردی کسی بھی نام، مقصد یا باہمی اختلاف کی صورت میں ہو۔
دونوں گروہ بی ایل اے ہو یا داعش خراسان پاکستان کی خودمختاری، سالمیت اور نظریاتی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ان کے باہمی جھگڑے کمزوری کی علامت نہیں بلکہ ان کی حکمت عملی میں تبدیلی کا اشارہ ہیں۔ پاکستان بغیر کسی تعصب یا نرمی کے ہر قسم کے خطرے کے خاتمے پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔
داعش اور بی ایل اے کے درمیان حالیہ باہمی جھڑپیں ان کی عدم استحکام، جارحانہ فطرت اور تباہ کن عزائم کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کا وجود ہی امن کے لیے خطرہ ہے چاہے وہ کسی سے بھی لڑ رہے ہوں۔ پاکستان چوکنا ہے اور ہر سمت سے آنے والے دہشت گردی کے اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
داعش مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اپنے عزائم کی تکمیل کرتی ہے، جبکہ بی ایل اے علیحدگی کے نعروں کی آڑ میں تخریبی کارروائیوں کو جواز دیتی ہے۔ لیکن دونوں کا اصل مقصد ایک ہی ہے جو پاکستان کو اندر سے کمزور کرنے کے ایجنڈے پر مشتمل ہے۔ ریاست اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے معاملے میں کسی گروہ میں فرق نہیں کرتی۔
پاکستان کی نظریاتی بنیادیں غیر متزلزل ہیں۔ داعش خراسان اور بی ایل اے دونوں ملک کے اتحاد، امن، اور سلامتی کے اصولوں کو چیلنج کرتے ہیں۔ ان کے باہمی جھگڑے ان کے ریاست مخالف عزائم کو مزید واضح کرتے ہیں۔ پاکستان اپنے نظریاتی اور آئینی حدود کے تحفظ کے لیے مضبوطی سے کھڑا ہے۔
دہشت گردوں کے باہمی اختلافات پاکستان کی بیرونی سلامتی پالیسی پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ ریاست اپنی حکمت عملی ان کی آپسی دشمنی کے لحاظ سے نہیں بناتی بلکہ اس پر توجہ دیتی ہے کہ یہ گروہ پاکستان کے امن کو کتنا خطرہ پہنچا سکتے ہیں۔ ہر وہ گروہ جو پاکستان کے امن کو چیلنج کرے گا اسے ریاست کی مکمل طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہماری توجہ اس پر ہے کہ یہ کیسا خطرہ ہیں، نہ کہ یہ کس سے لڑ رہے ہیں۔
دہشت گرد گروہوں کے درمیان جھگڑے کسی بہتری کی علامت نہیں بلکہ محض اندرونی افراتفری ہیں جو خود کو کھا رہی ہے۔ یہ افراتفری بے گناہ جانوں اور قومی استحکام کے لیے مسلسل خطرہ ہے۔ ریاستی عزم ردعمل پر مبنی نہیں بلکہ پیشگی حکمت عملی پر قائم ہے ریاست انہیں روکنے، باز رکھنے اور مکمل خاتمے پریقین رکھتی ہے۔ کیونکہ ریاست اس عزم پر کاربند ہے کہ دہشت گردی کی ہر شکل کو فیصلہ کن طاقت سے کچلا جائے گا۔
پاکستان دشمنوں کے درمیان کسی کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ خطرات کا خاتمہ کرتا ہے۔ چاہے داعش اور بی ایل اے نظریاتی یا عملی لحاظ سے مختلف ہوں، دونوں کا ایجنڈا تباہی ہے۔ یہ گروہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں، امن کو سبوتاژ کرتے ہیں اور قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ریاست کا جواب ہر صورت میں واضح یکساں، مضبوط اور فوکس ہے۔
پاکستان اس عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ ریاست تمام اندرونی و بیرونی خطرات کے خلاف پوری قوت کے ساتھ برسرِپیکار ہے۔ قومی سلامتی، نظریاتی سرحدوں اور عوام کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی اولین ترجیح ہے۔ چاہے دشمن آپس میں لڑیں یا متحد ہوں، ریاست ان سب کا ایک ہی پیمانے پر محاسبہ کرے گی۔
یہ حقیقت کہ داعش اور بی ایل اے ایک دوسرے سے برسرِپیکار ہیں، کسی طور بھی پاکستان کے لیے اطمینان یا کم خطرے کی علامت نہیں ہے۔ یہ جھگڑے صرف اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کے اندرونی اختلافات بھی ایک اور خطرناک مرحلے کی تیاری ہیں۔ ریاست کو اس افراتفری کو دیکھ کر مزید محتاط، مزید منظم اور مزید فعال ہونا ہوگا۔
پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں نے ان گروہوں کے خلاف متعدد کامیاب کارروائیاں کی ہیں اور مسلسل انٹیلیجنس اور آپریشنز کے ذریعے ان کے نیٹ ورکس کو توڑنے پر کام کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی صرف بندوقوں اور گولیوں سے نہیں جیتی جا سکتی۔ اس میں عوامی تعاون، بہتر حکمرانی اور محرومیوں کا خاتمہ بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہیں۔
ریاستی بیانیہ واضح ہے کہ ہم دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پرعزم ہیں۔ بی ایل اے، داعش یا کسی اور نام سے آنے والے خطرات کا خاتمہ پاکستان کی ریاستی، عسکری، سفارتی اور نظریاتی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔
مستقبل میں بھی پاکستان کو چاہیے کہ وہ کثیرالجہتی حکمت عملی اپنائے، جس میں انٹیلیجنس کو مزید بہتر بنایا جائے، عوام کو بااختیار بنایا جائے، پسماندہ علاقوں میں ترقیاتی کاموں کو تیز کیا جائے، اور دہشت گردی کے نظریاتی پہلو کو علمی اور فکری سطح پر چیلنج کیا جائے۔
صرف عسکری اقدامات کافی نہیں، بلکہ عوامی اعتماد، سیاسی استحکام، تعلیمی اصلاحات اور بین الاقوامی شراکت داری کے ذریعے ہی ہم محفوظ، پرامن اور مضبوط پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ یہی پاکستان کی بقاء اور ترقی کا راستہ ہے۔
Author
-
سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025بیورو چیف، پی این این، پشاور
جنوری 2023 تا جنوری 2024بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
16 فروری 2005 تا 21 جون 2008رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
فروری 2000 تا 30 نومبر 2003