Nigah

باغ بھرے تھا لیہ جنگ

sindoor

بھارت نے نام نہاد سندور اپریشن کے نام سے پاکستان پہ جو چڑھائی کی تھی اس کے جواب میں پاکستان کے عزم مصمم بنیان المرصوص ایسی لگی کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو 14 طبق روشن ہو گئے اور ان کا بوتھا ہنوز پھولا ہوا ہے اور سجا ہوا ہے گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارت اس جدوجہد میں مصروف تھا کہ پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دے کر نہ صرف اس کو اقتصادی معاشی سیاسی استحکام اور دوسرے شعبوں میں پسماندہ کر دیا جائے اور دنیا میں تنہا کر دیا جائے اور اس سلسلے میں اس میں بڑی طاقتوں کے الہ کار کے طور پر بھی خوب خدمات انجام دی ایک وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بھارت اپنے مضموم عزائم میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اس کو جو ہزیمت اٹھانی پڑی اس سے بھارتی عوام بہت ہی مایوس ہوئے ہیں اب دنیا پر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان تو ایک طویل عرصے سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جبکہ بھارت اپنے ناپاک اذان کی بنیاد پر پاکستان کو بار بار دہشت گردی کی طرف دھکیل نے کی سازشیں کرتا رہتا ہے ابھی حال ہی میں جعفر ایکسپریس کا واقعہ رونما ہوا اس کے بارے میں جو پاکستان کے سرکاری اداروں نے تحقیق و تفتیش کی ہے اس میں یہ کھل کر حقیقت سامنے اگئی ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردوں کا پشت بانی ہے انہیں ہر قسم کی امداد دیتا ہے اور بڑے دھڑلے سے پاکستان میں دہشت گرد سرگرمیوں میں اعانت کرتا ہے جس کی تازہ ترین مثال جعفر ایکسپریس کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی ہے جعفر ایکسپریس کے ساتھ جو سانحہ دہشت گردی رونما ہوا اس کی تفصیلات جو سامنے ائی ہیں وہ اس طرح ہے کہ بھارتی فوج کے
‏میجر شنکر لال سولنکی اور کیپٹن وجے کمار راٹھور۔ دونوں بھارتی فوج کی 14 ویں راجپوت رائفلز سے وابستہ ہوئے، بعدازاں RAW کے ملٹی ڈومین بلیٹن ٹیم میں شامل ہوئے۔ آپریشن گرین بولان کے دوران پاکستانی فوج کے ہاتھوں یہ بھی مارے گئے ۔

یہ دونوں 11 مارچ 2025 کو جب فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) نے جعفر ایکسپریس ہائی جیک کی تو شنکر اور وجے بھی وہاں موجود تھے۔بھارت کو اور دنیا کے دیگر قوتوں کو یعنی کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ پاکستان اتنا برق رفتار آپریشن کرے گا کہ بھاگنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ جب جعفر ایکسپریس کے دہشت گردوں کی لاشیں سول اسپتال کوئٹہ لائی گئیں۔ اس وقت کسی کو اندازہ تک نہ تھا کہ ان لاشوں میں دو بھارتی فوجی آفیسرز بھی شامل ہیں۔اس سے پہلے کوئٹہ ہسپتال لائی جانے والی لاشوں کی شناخت مکمل کی جاتی اور ان کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے جاتے کہ ۔ 20 مارچ کو ماہ رنگ لانگو کی قیادت میں بی وائی سی نے کوئٹہ کے سول اسپتال پر دھاوا بول دیا اور 5 لاشیں زبردستی چھین کر لے گئی۔

جن میں سے 3 لاشیں تو بعد میں پولیس نے مختلف علاقوں سے برامد کرلیں لیکن دو لاشوں کا کوئی پتہ نہ چل سکا۔ ان لاشوں کی گمشدگی نے ایجنسیوں کے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بجا دی کہ یہ لاشیں کوئی غیر معمولی نہیں ہے اس کے پس پردہ کوئی بہت بڑی پشت بانی اور سازش ہےکیوں کہ جعفر ایکسپریس ہائی جیک سے 20 مارچ یعنی 9 روز تک خاموشی تھی۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ اسپتال پر دھاوا بولا گیا ۔جو ایک تاریخی واقعہ قرار پاتا ہے چنانچہ انہی خطرات کی گھنٹی کی گونج کو سن کر ایجنسیوں نے پوری طرح تیار ہو کر تحقیقات کا اغاز کیا اور اس تحقیقات کے نتیجے میں جو حقائق سامنے ائے اس نے نہ صرف تحقیقاتی اداروں کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ ایک بہت بڑی سازش کی نقاب بھی الٹ دی
۔تحقیقات سے یہ اہم بات سامنے آئی وہ یہ تحقیقاتی ایجنسیوں کو ہسپتال کے ڈاکٹرز اور دوسرے عملے نے بتایا کہ جو پانچ لاشیں اسپتال سے بردستی لے جائی گئی ہیں ان میں دو لاشیں ایسی تھیں جن کے جسموں پر مخصوص ٹیٹو اور سڑکوں کے نقشے تھے۔ جو ان کیلئے بھی حیرانی کا باعث تھے اور اس کی اطلاع حکام کو کردی گئی تھی لیکن اس سے قبل کے کوئی شناختی پیشرفت ہو پاتی لاشیں چھین لی گئیں ۔تفتیش کے اس پہلو نے ایجنسی کے اداروں کی بڑی رہنمائی کی اور اسی کی بنیاد بنا کر ان دو لاشوں کے بارے میں جستجو کی گئی اداروں کو یہ کامیابی حاصل ہوئی کہ انہیں انکشاف ہو کہ وہ دو لاشیں کس کی تھیں ان میں سے ایک شنکر لال اور دوسرا وجے کمار تھا۔
شنکر لال سولنکی کا تعلق بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع بارمیر کے گاؤں گُڑیا سے تھا، جو پاک-بھارت سرحد سے محض 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ علاقہ تھر کے بنجر ریگستانی ماحول سے مطابقت رکھتا ہے، جہاں رات کے وقت تربیتی سرگرمیاں باآسانی انجام دی جا سکتی ہیں۔ اس علاقے کی ریگستانی ٹوپوگرافی، خشک نالے اور سرحدی درّے بلوچستان کے راس کوہ کے مغربی شگاف سے حیرت انگیز مشابہت رکھتے ہیں۔

‏دوسری جانب، وجے کمار راٹھور بھارتی ریاست گجرات کے ضلع کَچھ کی تحصیل انجر کے گاؤں موٹیسار کا رہائشی تھا۔ اس کا تعلق ایک نیم خانہ بدوش کنبے سے تھا جو اونٹوں کی تجارت کرتا تھا۔ کَچھ کا کریک ایریا، اس کی نمکزاریں، اور وہاں کی ساحلی زمینیں بلوچستان کے ساحلی بیلٹ کی ارضیاتی ساخت سے مطابقت رکھتی ہیں۔ ماہی گیروں کی جھونپڑیوں جیسے کم آباد مقامات وجے جیسے ایجنٹوں کے لیے بہترین چھپ گاہیں ثابت ہو سکتی تھیں۔ یہی جغرافیائی اور ثقافتی مماثلتیں را کے لیے ان علاقوں کے افراد کو بلوچ سرزمین میں ضم کر کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کو آسان بناتی ہیں۔

‏ان دونوں لاشوں کےافسران نے را میں شمولیت کے بعد 2023-24 میں بھارتی فوج کے صحرا وارفیئر اسکول، جیسلمیر سے کوبرا مِزائل گائیڈنس کورس بھی کیا۔پروجیکٹ دُرگ نامی ایک خفیہ پروگرام کے تحت، را نے انہیں ایرانی سرحد کے قریب ڈپلائے کیا ان افسروں کی ذمہ داری تھی کہ وہ بھارتی ایجنٹوں کی بھرپور معاونت کریں جس میں ایجنٹوں کے لیے تربیت کا پروگرام بھی شامل تھا اور وسائل بھی فراہم کرنا تھے جب پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے جعفر ایکسپریس میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف ورک رفتاری کے ساتھ اپریشن شروع کیا تو ان میں یہ دونوں بھارتی فوجی افسر شنکر اور وجے بھی مارے گئے۔ ان کے مخصوص سیٹلائٹ فونز اور دائیں بازو پر کندہ ‘रुद्र’ ٹیٹو نے ڈاکٹرز کو حیران کردیا اور انہوں نے سول حکام کو اطلاع دے دی کلبھوشن یادیو کا سایہ پھر سے ننگا ہونے لگاہے چنانچہ دشمن نے پاکستان میں اپنی ایجنٹ تنظیم کو سر گرم کیا گیا تاکہ بھارت کے ملوث ہونے کے تمام نشانات کو مٹا دیا جائے چنانچہ 20 مارچ تک ہسپتال میں دہشت گردوں کی لاشیں اتی رہی اس وقت تک کوئی غیر معمولی واقعہ رونما نہیں ہوا لیکن 20 مارچ کی شام جس روز بھارتی فوجی افسروں کی لاشیں ہسپتال پہنچائی گئی تو ایک ہجوم جمع ہو گیا اس ہجوم میں نے عورتوں کو فرنٹ پر رکھا تاکہ سیکورٹی فورسز کوئی ایکشن لینے سے لاچار رہیں خواتین کے احترام کی وجہ سے اور اگر لے تو ان کو بد نام کیا جا سکے کہ خواتین پر تشدد کیا گیا ہے ظلم کیا گیا ہے ارمی سطح پر نام نہاد ان تنظیموں کو متحرک کیا جائے پاکستان کے خلاف جو حقوق انسانی کے پرچار کی اڑ میں ظالم ریاستوں کا ساتھ دیتی ہیں ہجوم کو اکٹھا کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہر حالت میں بھارتی ایجنٹوں اور بھارتی فوجی افسروں کی شناخت کو دبا دیا جائے یا اشکارہ نہ ہونے پائے اور لا پتہ افراد کے الزامات لگا کر پاکستان کے لیے ایک گہراؤ ایسا پیدا کر دیا جائے کہ پاکستان دنیا میں تنہا ہو کر رہ جائے چنانچہ ان مقاصد کے لیے دھرنا دیا گیا اور مطالبہ وہی روایتی تھا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کیا جا رہا ہے تاکہ تمام اداروں کا رخ نما دہشت گردوں اور اسپتال میں ان کے پوسٹ مارٹم کی طرف سے ہٹ کر لاپتہ افراد کے کے لیے ہونے والے احتجاج پر مرکوز ہو جائے اور بھارتی ایجنٹ اپنا کام دکھا جائیں -دھرنے سے فائدہ اٹھایا گیا اور ہسپتال سے زبردستی لاشیں اٹھا کر لے جائی گئی اس کے ساتھ ہی لاپتا افراد کی گمشدگی کی ڈونڈی پیٹنا شروع کر دی گئی کہ پوری پاکستانی قوم کا دھیان اس طرف نہ جا سکے لیکن پولیس نے بڑی پھرتی دکھائی بڑی چابک دستی کے ساتھ پولیس چھاپوں میں تین لاشیں بازیاب ہوئیں، دو تاحال لاپتا۔با خبر ذرائع کے مطابق انہیں بلوچستان-ایران سرحد پار لیجا کر سمندری راستے سے بھارت پہنچا گیا

‏جعفر ایکسپریس کا سانحہ محض ایک ریل گاڑی کا اغوا نہ تھا۔ یہ پاکستانی سرزمین پر براہِ راست بھارتی انٹیلی جنس مداخلت کا زندہ ثبوت تھا بلکہ براہ راست دہشت گردی کا واقعہ ہے۔ بی وائی سی نے پہلی مرتبہ لاشیں چھین کر “حقوقِ انسان” کا پردہ اوڑھ کر ایک خفیہ جنگی آپریشن کو چھپانے کی کوشش کی۔یہاں سوال یہ سوال اٹھتا ہے کہ عالمی ادارے کب تک انسانی حقوق کے نام پر دہشت گردی کی کور اپ کو نظر انداز کرتے رہیں گے؟سوچنے کا عمل یہ ہے کہ جو لاشیں اٹھا کر لے گئے ہیں کیا یہ یا کا یک واقعہ رہنما ہوا اور کیوں لے کر گئے یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے اور اتنی جلدی صرف دو لاشیں اس طرح گم کر دی گئی کہ ان کا سراخ نہیں مل پا رہا صرف شوائد مل رہے ہیں شناخت مل گئی ہے لیکن لاشیں جسمانی طور پر دستیاب نہیں ہو پائی ہیں پاکستان کے پاس بھارت کی دہشت گردی کے تمام ثبوت موجود ہیں اس وقت پاکستان کو بنیان مرصوص کہ اپریشن یا جواب بھی اپریشن سے جو دنیا بھر کا اعتماد حاصل ہوا ہے اس کو ضائع نہیں کر دینا چاہیے ڈٹ کر عالمی برادری کے سامنے بھارت کا مکروہ چہرہ رکھ دینا چاہیے اس کے علاوہ پوری قوم کو بھی ان حالات و واقعات سے اگاہ کرنا چاہیے کہ معلوم ہو قوم کو کہ پس پشت دشمن کے کیا عزائم ہیں کون لوگ اس میں ملوث ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ دشمن خود کسی کی سرزمین میں داخل ہو کر کاروائیاں کرتا ہے اس کے گنے چنے ہی افراد داخل ہوتے ہیں اور باقی سارا کام وہ اپنے ضمیر فروش ایجنٹوں کے ذریعے کراتے ہیں ظاہر ہے کہ جب دو بھارتی فوجی افسروں کی لاشیں زبردستی لے جا کر چھپا دی گئی ہے یا بھارت بھجوا دی گئی ہیں جو بھی صورتحال ہے اس میں ظاہر ہے کہ ان کے ایجنٹ ہیں اور یہ ایجنٹ کون ہیں یہ وہ ایجنٹ ہیں جو بلوچستان کے حقوق کے نام پر انسانی حقوق کے نام پر اپنی سیاست کی شعبدہ بازی کرتے ہیں اور پاپولر نعروں کے ذریعے عوام کو گمراہ کر کے اپنے مضموم عزائم حاصل کرتے ہیں اس وقت عالمی سطح پر پاکستان کی حیثیت بہت ہی مثبت ریکارڈ قائم کر رہی ہے جس سے پاکستان کی سیاسی قیادت کو پورا فائدہ حاصل کرنا چاہیے اور دشمن کو کنارے سے لگا دینا چاہیے اگر اس میں سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کیا گیا تو یہ پاکستان کے لیے سقوط مشرقی پاکستان سے بھی بڑا المیہ ہو سکتا ہے عالمی سطح پر چاہے وہ سفارت کاری کا ہے یا کسی اور شعبے سے تعلق رکھتا ہے پاکستان اس وقت ایک مضبوط پوزیشن میں ہے اس وقت سارا بوجھ پاکستان کے پالیسی ساز اداروں اور شخصیات پر ایت پڑھی ہے جس کو بروقت بہانہ ان کی ذمہ داری ہے کیونکہ وقت ٹھہرتا نہیں ہے اس امر کا احساس اگر ہو جائے تو پاکستان ایک بہت بڑے استحکام کی طرف رواں دواں ہو جائے گا جس میں اقتصادی دفاعی معاشی سیاسی سفارتی سب کچھ شامل ہے

Author

  • صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔