Nigah

بھارت کا آبی و فوجی جارحیت پر محاسبہ

navy

بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں طاقتور ریاستوں کی جانب سے کمزور یا چھوٹے ممالک کے خلاف جارحانہ رویے کوئی نئی بات نہیں، لیکن جب ایک ایٹمی ریاست اپنے ہمسایہ ممالک کے خلاف مسلسل آبی و فوجی جارحیت کا ارتکاب کرتی ہے تو یہ صورتحال صرف خطے کے امن ہی کو نہیں بلکہ عالمی امن کو بھی خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ بھارت، جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے، اپنے ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان کے خلاف جس طرح آبی و فوجی جارحیت کر رہا ہے، وہ بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے چارٹر، اور انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس تناظر میں عالمی برادری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارت کا سخت محاسبہ کرے برابری کی سطح پر بامعنی مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے بین الاقوامی وعدوں اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنائے۔
بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کئی دہائیوں سے جاری ہے، جو درحقیقت ایک خاموش جنگ کے مترادف ہے۔ 1960ء میں ہونے والا سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک اہم بین الاقوامی معاہدہ تھا، جس کے ضامن عالمی بینک اور دیگر طاقتور ممالک تھے۔ اس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریا بھارت کو دیے گئے جبکہ تین مغربی دریا، جن پر پاکستان کا انحصار ہے، پاکستان کو الاٹ کیے گئے۔ لیکن بھارت نے وقتاً فوقتاً مختلف ڈیمز اور آبی منصوبوں کے ذریعے ان دریاؤں کے بہاؤ میں مداخلت کی، جس سے پاکستان میں زرعی بحران، آبی قلت اور ماحولیاتی مسائل پیدا ہوئے۔
بھارت کے آبی منصوبے جیسے کشن گنگا، رتلے، اور بگلیہار ڈیم عالمی قوانین اور سندھ طاس معاہدے کی روح کے خلاف ہیں۔ بھارت نہ صرف معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرتا رہا ہے بلکہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکیاں بھی دیتا رہا ہے، جو کہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ یہ عمل اقوام متحدہ کے ان اصولوں کی بھی نفی کرتا ہے جو ماحولیاتی انصاف اور پانی کے مساوی استعمال پر زور دیتے ہیں۔
حالیہ کشیدگی کے دوران بھارت نے پانی بند اور سندھ طاس معاہدہ معطل کرکے اپنے عزائم آ شکارا کردیئے۔جبکہ پاکستان نے 24 کروڑ لوگوں کی لائف لائن کاٹنے کی صورت میں اسے جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔
بھارت کی فوجی جارحیت کا تسلسل لائن آف کنٹرول (LOC) پر واضح طور پر نظر آتا ہے، جہاں بھارتی افواج کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ایک معمول بن چکی ہیں۔ بھارتی فوج کی جانب سے پاکستانی دیہات ، سکولوں اور شہری آبادیوں کو نشانہ بنانا انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ان حملوں میں نہ صرف معصوم شہریوں کا جانی نقصان ہوتا ہے بلکہ متاثرہ علاقوں میں مستقل خوف، معاشی بدحالی اور بے گھر ہونے جیسے مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔
پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی جانب سے بالاکوٹ پر سرجیکل اسٹرائیک کا جھوٹا دعویٰ اور پھر پاکستان کی فضائی حدود میں دراندازی کی کوشش عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف بھارتی طیارہ مار گرایا بلکہ گرفتار پائلٹ کو واپس کر کے امن کا پیغام بھی دیا، جو بھارت کی جارحیت اور پاکستان کے ذمہ دارانہ رویے میں واضح فرق کو ظاہر کرتا ہے۔
بھارت کی فوجی جارحیت کا سب سے بھیانک چہرہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں نظر آتا ہے، جہاں 2019ء میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد مقبوضہ وادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا گیا۔ لاکھوں فوجیوں کی موجودگی، کرفیو، انٹرنیٹ بندش، سیاسی قیادت کی گرفتاری اور شہری آزادیوں پر پابندیاں نہ صرف کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی ہیں بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی کھلی خلاف ورزی بھی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹس میں واضح طور پر بھارتی افواج کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل، خواتین کی بے حرمتی، جبری گمشدگیاں اور نوجوانوں پر پیلٹ گنز کے استعمال کی مذمت کی گئی ہے، مگر عالمی برادری کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدام نہ اٹھایا جانا ایک المیہ ہے۔ بھارت کی آبی و فوجی جارحیت کے باوجود عالمی برادری خصوصاً مغربی طاقتوں کی خاموشی نہ صرف حیران کن ہے بلکہ اس سے عالمی امن کے ضامن اداروں کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔ جب بین الاقوامی برادری انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحفظ میں دوہرا معیار اپناتی ہے، تو اس سے طاقتور ممالک کی جارحیت کو مزید شہ ملتی ہے۔
عالمی برادری کی اس بے حسی کی ایک بڑی وجہ بھارت کی بڑی منڈی اور جغرافیائی سیاسی اہمیت ہے۔ مغربی طاقتیں تجارتی مفادات اور اسٹریٹجک شراکت داری کی وجہ سے بھارت کی زیادتیوں کو نظرانداز کر رہی ہیں، جو کہ اصولوں کی نہیں بلکہ مفادات کی سیاست کا عکاس ہے۔ اگر بین الاقوامی نظام صرف طاقت اور دولت کے محور پر گھومے گا تو یہ انصاف، امن اور انسانی حقوق کے دعووں کو کھوکھلا بنا دے گا۔
اب وقت آ چکا ہے کہ عالمی برادری بھارت کی آبی و فوجی جارحیت کا محاسبہ کرے۔ اقوام متحدہ، عالمی بینک، اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف جیسے اداروں کو چاہیے کہ وہ
سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں پر بھارت کو بین الاقوامی فورمز پر جوابدہ ٹھہرائیں۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر آزادانہ تحقیقات کروائیں اور ذمہ داروں کو سزا دیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے کے لیے کردار ادا کرے۔ لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کے مبصرین کی موجودگی کو فعال کرے تاکہ سچ دنیا کے سامنے آ سکے۔ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے سفارتی دباؤ ڈالیں اور ثالثی کے کردار کو سنجیدگی سے اپنائیں۔
بین الاقوامی میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھارت کی جانب سے کیے گئے مظالم کو اجاگر کرنے کی ترغیب دیں۔ یہ مسلمہ اصول ہے کہ انصاف کے بغیر امن ممکن نہیں آبی و فوجی جارحیت صرف علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کی دوایٹمی طاقتوں کے درمیان تنائو اور بھارتی ہٹ دھرمی عالمی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
بھارت کی مسلسل زیادتیوں کو نظرانداز کرنا محض ایک ملک کے ساتھ ناانصافی نہیں بلکہ پوری دنیا کے ساتھ ظلم ہے۔ جب تک عالمی برادری دوہرا معیار ترک کر کے انصاف پر مبنی مؤقف اختیار نہیں کرتی، تب تک نہ صرف جنوبی ایشیا میں بلکہ پوری دنیا میں امن ایک خواب ہی رہے گا۔ اگر عالمی برادری واقعی انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتی ہے تو اُسے بھارت کا محاسبہ کرنا ہو گا، بامعنی مذاکرات کی حمایت کرنی ہو گی، اور بین الاقوامی وعدوں کو عملی جامہ پہنانا ہو گا۔

Author

  • ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔