بھارت خود کو خطے میں اقلیتوں کا محافظ اور مظلوموں کا مسیحا بنا کر پیش کرتا ہے۔ سرکاری بیانیے میں بار بار یہ دعویٰ دہرایا جاتا ہے کہ ہندوستان، خصوصاً ہندو اور سکھ اقلیتوں کے لیے، ایک فطری جائے پناہ ہے۔ تاہم جب ہم اس بیانیے کی سطح کے نیچے جھانکتے ہیں تو ہمیں ایک ایسی حقیقت دکھائی دیتی ہے جو نہ صرف بھیانک ہے بلکہ سیاسی چالاکیوں سے آلودہ بھی۔ مودی حکومت کی جانب سے متعارف کردہ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (CAA) کو اس نیک نیتی کا آئینہ دار بنا کر پیش کیا گیا کہ غیر مسلم اقلیتوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی تاکہ وہ "مذہبی ظلم” سے بچ سکیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ قانون ایک اور انتخابی نعرہ بن کر رہ گیا، جو صرف سیاسی جلسوں اور ٹی وی مباحثوں میں گونجتا ہے، زمینی حقیقتوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر سے ہجرت کر کے بھارت میں پناہ لینے والے ہندو جوڑے سنجے کمار اور سپنا کماری کی المناک اور پراسرار موت نے بھارت کے اس مہربان چہرے سے نقاب نوچ دیا ہے۔ ممبئی میں ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنا اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے لیے نہ تو تحفظ ہے، نہ ہی انصاف۔
یہ واقعہ کوئی پہلا نہیں۔ اگست 2020 میں راجستھان کے شہر جودھپور میں ایک ہی خاندان کے 11 پاکستانی ہندو پناہ گزین پراسرار حالات میں مردہ پائے گئے۔ پولیس رپورٹ میں اس سانحے کو اجتماعی خودکشی قرار دینے کی کوشش کی گئی، لیکن متاثرہ خاندان کے رشتہ دار آج بھی اس واقعے کو "قتلِ عام” گردانتے ہیں، اور انصاف کے متلاشی ہیں۔
بھارت میں اس وقت تقریباً 80 ہزار پاکستانی ہندو پناہ گزین مختلف ریاستوں میں عارضی خیمہ بستیوں میں مقیم ہیں۔ ان کی زندگی ایک ایسی قید ہے جہاں نہ کوئی دستاویز ہے، نہ شہریت، نہ بنیادی انسانی حقوق۔ نہ بجلی، نہ صاف پانی، نہ بیت الخلاء، اور نہ ہی علاج کی سہولیات۔ ان کے بچے اسکول جانے سے محروم ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی قانونی شناخت نہیں۔ تعلیم کا حق جو ہر بچے کا بنیادی حق ہے، ان بستیوں میں ناپید ہے۔ یہ بچے، جنہیں بھارت نے علم و تحفظ کے خواب دکھائے، وہ اندھیرے اور غربت کے اسیر بن گئے۔ ان کی اگلی نسلیں تعلیم کی روشنی سے محروم رہیں گی۔
جھوٹے وعدے، کٹھن حقیقتیں
بھارتی حکومت نے CAA کی چھتری تلے لاکھوں غیر مسلم پناہ گزینوں کو شہریت دینے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر اعداد و شمار کچھ اور کہانی سناتے ہیں۔
2014 اور 2015 کے دوران صرف 4,300 افراد کو شہریت دی گئی، جب کہ 2015 تک صرف 36,000 کو طویل مدتی ویزے دیے گئے۔ باقی لاکھوں افراد آج بھی فائلوں کے انبار میں گم ہیں۔
شہریت کے اس وعدے کو اب ایک دہائی ہونے کو ہے، لیکن اب بھی لاکھوں زندگیاں “انتظار” کے موڈ میں منجمد ہیں۔ یہ محض تاخیر نہیں، بلکہ ایک منظم استحصال ہے۔
2021 میں 800 سے زائد ہندو خاندان بھارت چھوڑ کر واپس پاکستان لوٹ گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بھارت کے "محفوظ” مستقبل پر یقین کر کے اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑا تھا۔ ان کی واپسی بھارت کے سیکولر ازم کے دعوے پر ایک طمانچہ ہے۔ انہوں نے شناخت کے بحران سے نکلنے کے لیے ایسی سر زمین کو ترجیح دی، جہاں جھوٹا وعدہ نہیں تھا۔
یہ قدم اس حقیقت کی نشان دہی کرتا ہے کہ بھارت کی اقلیت نوازی کا دعویٰ دراصل ایک سیاسی ہتھکنڈہ ہے، ایک ایسا حربہ جس سے داخلی سیاست میں ووٹوں کی فصل کاٹی جاتی ہے، اور بین الاقوامی دنیا کے سامنے خود کو مہربان ریاست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
شہریت ترمیمی قانون کا اصل مقصد انسانی حقوق کا تحفظ نہیں بلکہ سیاسی فائدہ ہے۔ یہ قانون مسلمانوں کو باہر رکھ کر اکثریتی طبقے کی دلجوئی کرتا ہے، اور بی جے پی کی ہندوتوا سیاست کو ایندھن فراہم کرتا ہے۔ اقلیتوں کے لیے پناہ کا جھوٹا وعدہ ایک ایسا حربہ بن چکا ہے جس کے ذریعے عوام کو جذباتی کیا جاتا ہے، انتخابات میں برتری حاصل کی جاتی ہے، اور بین الاقوامی سطح پر خود کو مظلوموں کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر جب کیمرے بند ہو جاتے ہیں، جب بین الاقوامی توجہ ہٹ جاتی ہے، تو یہی اقلیتیں ظلم، غربت، اور گمنامی میں دفن کر دی جاتی ہیں۔ بھارت کمزور اور مظلوم اقلیتوں کو اپنی طرف بلاتا ہے، انہیں امید دلاتا ہے، اور پھر انہیں سیاسی بیانیے کا ایندھن بنا دیتا ہے۔ ان کے دکھوں کو جلسوں میں بیچا جاتا ہے، ان کی بے بسی کو نعرے میں بدلا جاتا ہے، اور ان کی لاشوں پر سیاست کی جاتی ہے۔
سنجے کمار اور سپنا کماری کی موت ایک المناک حقیقت ہے، مگر یہ بھی اس نظام کی ناکامی کا ایک استعارہ ہے ، اس وعدے کا جو کبھی پورا نہ ہوا، اس منافقت کا جو اقلیتوں کو صرف انتخابی ٹول سمجھتی ہے۔ بھارت کا اقلیت نوازی کا دعویٰ ایک نقاب ہے، جو اندرونی تعصب، سیاسی مفاد اور انسانی حقوق کی پامالی کو چھپانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ CAA اور اس جیسے قوانین اصل میں انسانیت کے نہیں، سیاست کے ترجمان ہیں۔
اس سارے منظرنامے میں سب سے زیادہ نقصان ان معصوم جانوں کو ہوتا ہے جو ایک نئی زندگی کے خواب دیکھ کر اپنی جڑیں چھوڑ کر آتے ہیں، مگر وہاں جا کر صرف مایوسی، خطرہ، اور بربادی پاتے ہیں۔
تاریخ اس منافقت کو بھولے گی نہیں۔ اور ایک دن آئے گا جب انسانوں کی قدرو قیمت ان کے مذہب سے نہیں، بلکہ ان کی انسانیت سے کی جائے گی۔
Author
-
ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:
View all posts