مشرقِ وسطیٰ کے سینے میں ایک نئی آگ دہک اٹھی ہے، جس نے نہ صرف دو دیرینہ دشمنوں کو براہِ راست ہولناک جنگ میں دھکیل دیا ہے بلکہ پوری دنیا کو ایک بڑے تصادم کے دھانے پر لا کھڑا کر دیا ہے
اسرائیل اور ایران کے درمیان برسوں سے جاری پراکسی کشمکش نے اب کھلے جنگی معرکے کی صورت اختیار کرچکی ہے، گزشتہ چند روز میں حالات اس قدر تیزی سے بدلے کہ دنیا محض تماشہ دیکھتی رہ گئی۔
اسرائیل نے ’آپریشن رائزنگ لائن‘ کے نام سے ایک ایسا بھرپور فضائی حملہ کیا، جو جدید تاریخ کے مہلک ترین حملوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ ایران کے حساس ایٹمی تنصیبات، عسکری اڈے، اور پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈ سینٹرز، حتیٰ کہ تہران جیسے مرکزی شہر بھی نشانے پر آئے۔
یہ حملے محض فضائیہ تک محدود نہیں تھے۔ خفیہ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کی جانب سے ڈرونز کے ذریعے تباہی اور نگرانی کی کارروائیاں پہلے ہی شروع کی جا چکی تھیں۔ ایران کو جوابی کارروائی کا موقع ملا تو اس نے تاخیر کیے بغیر سینکڑوں میزائل اور ڈرون اسرائیلی شہروں پر داغ دیے۔ تل ابیب، حیفہ، اور دیگر شہری مراکز میں دھماکوں کی گونج سنائی دی، درجنوں عمارتیں لرز اٹھیں اور کئی زندگیاں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں۔
اب تک ایران کی جانب سے 370 سے زائد میزائل اور حملہ آور ڈرونز داغے جا چکے ہیں، جبکہ اسرائیل کی جدید فضائی دفاعی نظام نے بیشتر کو روک لیا، مگر اس کے باوجود کم از کم 24 شہری جان کی بازی ہار چکے ہیں، اور 300 سے زائد زخمی ہیں۔
ایرانی سرزمین پر ہلاکتوں کی تعداد سرکاری طور پر 224 بتائی گئی ہے، مگر آزاد ذرائع کے مطابق ہلاکتیں 400 سے تجاوز کرچکی ہیں، جن میں اعلی فوجی قیادت اور ایٹمی سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی شامل ہیں۔
صورتحال اس قدر نازک ہوچکی ہے کہ اسرائیل اب زمین دوز ایٹمی تنصیبات جیسے فردو پلانٹ پر براہ راست حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جس کے لیے امریکہ سے ملنے والے بنکر بسٹر بموں کے استعمال کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اگرچہ واشنگٹن بظاہر اس جنگ سے علیحدگی کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ واضح اشارے ملے ہیں کہ اگر ایرانی حملے امریکی مفادات یا افواج کے قریب پہنچے تو امریکہ براہِ راست مداخلت کر سکتا ہے۔
تہران، اصفہان اور دیگر شہروں میں بدترین خوف کی فضا ہے۔ لوگ بڑی تعداد میں اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف نکل رہے ہیں۔ اسرائیل نے بھی کم و بیش 3 لاکھ 30 ہزار شہریوں کو ان علاقوں سے نکالنے کا حکم دے دیا ہے جہاں جوابی حملوں کا خطرہ زیادہ ہے۔ دونوں ملکوں کے تیل، بجلی، اور رہائشی ڈھانچے کو نقصان پہنچا ہے، اور عام انسان اس آگ کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
دوسری طرف سفارتی محاذ پر بھی غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی سے علیحدگی کی دھمکی دی ہے، اور یہ اندیشہ پیدا ہو رہا ہے کہ وہ ریڈیوایکٹیو "ڈرٹی بم” کے ذریعے انتقامی کارروائی پر اتر آئے گا۔
ایران کے وزیر خارجہ نے براہِ راست امریکہ سے رجوع کرتے ہوئے اسرائیل کو روکے جانے کے عوض جوہری معاہدے میں نرمی کی پیشکش کی ہے، مگر اسرائیل کی جانب سے اس تجویز پر مکمل خاموشی ہے۔
اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، چین اور ترکی سمیت عالمی برادری نے پرزور اپیل کی ہے کہ دونوں ممالک فوری طور پر جنگ بندی کریں، مگر اس وقت تک میدانِ جنگ میں صرف بارود کی زبان بولی جا رہی ہے۔ اور ہر نیا دن نئے حملوں، نئی لاشوں، اور نئے خدشات کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔
قارئین کرام ا
یہ صرف اسرائیل اور ایران کا معاملہ نہیں رہا۔ یہ ایک ایسا طوفان ہے جو اگر نہ روکا گیا تو لبنان، شام، خلیجی ممالک، اور حتیٰ کہ عالمی طاقتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ دنیا کی نظریں اب اس سوال پر جمی ہوئی ہیں کہ کیا یہ ایک محدود جنگ کا نقطۂ عروج ہے یا کسی بڑی عالمی جنگ کا نقطۂ آغاز۔۔۔۔۔۔؟
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اسرائیل کے خلاف حملوں میں روس اور شمالی کوریا کے ایران کو مدد فراہم کرنے کے شواہد ملے ہیں۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے بلکل قریب ہے، ایران کے جوہری پروگرام مسئلے کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران رضاکارانہ طور پر اپنے جوہری توانائی پروگرام سے دستبردار ہو جائے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی شہریوں کو تہران خالی کرنے کی وارننگ دی تھی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے پیغام میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے ایران سے کہا تھا کہ نیوکلیئر ڈیل پر دستخط کر دیں، انہیں ایسا کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ انسانوں
جانوں کا ضیاع شرم کی بات ہے، ایران کسی صورت نیوکلیئر ہتھیار حاصل نہیں کر سکتا۔
قارئین محترم ا
*ایران اسرائیل جنگ کے پیش نظر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کینیڈا سے جلد واپس روانہ ہوئے جس سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ایک غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق امریکی صدر جی7 اجلاس میں شرکت کے لیے کینیڈا میں تھے۔
امریکی صدر ایران اسرائیل جنگ کے پیشِ نظر دورہ مختصر کرکے واپس روانہ ہوگئے ہیں۔
واضح رہے کہ کینیڈا کے شہر البرٹا میں منعقدہ جی 7 کے سربراہی اجلاس کے پہلے دن شرکت کی اور اس موقع پر انہوں نے برطانیہ کے ساتھ ٹریڈ ڈیل کو حتمی شکل دینے کے دستاویز پر دستخط کردیے۔
اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیویٹ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا بتایا تھا کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے سبب صدر ٹرمپ جی7 اجلاس میں شرکت مختصر کرکے واپس امریکا جارہے ہیں۔
امریکی ٹی وی کے مطابق صدر ٹرمپ نے قومی سلامتی کونسل کو سیچوئشن روم میں تیار رہنے کی ہدایت کی جہاں انکی واپسی پر فوری اجلاس ہوگا۔
قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ھے کہ ایرانی عوام تہران شہر کو خالی کردے۔اس بیان کے بعد نیو یارک ٹائمز نے لکھا ھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایران اسرائیل جنگ میں شامل ھونے پر غور کررہا ھے۔ادھر چین نے کہا ھے کہ امریکہ ایران اور اسرائیل جنگ میں پیڑورل چھڑک رھی ھے ۔امریکہ کو چاہیے ایسی بیانات سے گریڑ کریں ورنہ معاملہ مذید بگڑے گا۔ادھر امریکہ نے دعوہ کیا ھے کہ چین ایران کی مدد کررہاھے۔
Author
-
سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025بیورو چیف، پی این این، پشاور
جنوری 2023 تا جنوری 2024بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
16 فروری 2005 تا 21 جون 2008رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
فروری 2000 تا 30 نومبر 2003