Nigah

اسرائیل، ایران کشیدگی میں پاکستان کا ذمہ دارانہ کردار

iran israel

 

چند برسوں کے دوران مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی جو لہر ایران اور اسرائیل کے درمیان چلی ہے، وہ نہ صرف خطے کے استحکام کے لیے خطرہ ہے بلکہ اس کے اثرات دُور دراز ملکوں تک پہنچنے لگے ہیں۔خاص طور پر ایران پر اسرائیلی جارحیت کے بعد عالمی سطح پر ایک نیا سفارتی تناؤ جنم لے چکا ہے ۔ان حالات میں پاکستان، جو نہ صرف اسلامی دنیا کا اہم ملک ہے بلکہ ایٹمی طاقت بھی ہے، اس نے غیر جانب دارانہ، متوازن اور تدبر پر مبنی رویہ اپنا کر بین الاقوامی سطح پر ایک ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا فیک نیوز کے ذریعے پاکستان کے موقف کو توڑ مروڑ پیش کرنے کے تناظر میں سینیٹ میں دیا گیا بیان اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین کرتا ہے ۔
دراصل یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب مشرق وسطیٰ شعلہ زن ہے، جعلی خبریں فضا میں زہر گھول رہی ہیں، اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو ایک بار پھر عالمی مباحثے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا، "جنگ مذاق نہیں، ہمارا نیوکلیئر اور میزائل پروگرام ہماری اپنی حفاظت کے لیے ہے۔” اس واضح اور غیر مبہم پیغام کا مقصد پاکستان کی دفاعی پالیسی پر اٹھنے والے سوالات کا دو ٹوک جواب دینا تھا۔
اسحاق ڈار کا کہنا بجا ہے کہ پاکستان نے 1998 میں اپنے ایٹمی پروگرام کا اعلان محض طاقت کے مظاہرے کے لیے نہیں بلکہ توازنِ قُوٰی کو برقرار رکھنے اور اپنے تحفظ کے لیے کیا تھا۔
موجودہ دور کی جنگیں صرف بارود، ٹینکوں اور میزائلوں سے نہیں لڑی جاتیں، بلکہ جعلی خبروں، ایڈٹ شدہ کلپس، اور مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے عوامی رائے کو ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔ اسحاق ڈار نے درست نشان دہی کی کہ ایک ویڈیو کلپ، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے منسوب کیا گیا، دراصل AI سے تیار کردہ نکلا۔اسی طرح اسرائیل، ایران اور پاکستان کے تناظر میں بھی متعدد من گھڑت بیانات گردش کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ افواہ پھیلائی گئی کہ اگر اسرائیل نے ایران پر ایٹمی حملہ کیا تو پاکستان بھی اسرائیل پر جوابی ایٹمی حملہ کرے گا۔ وزیر خارجہ نے اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور جھوٹی خبر قرار دیا۔ یہ امر قابلِ تشویش ہے کہ بعض حلقے دانستہ یا نادانستہ طور پر ایسی خبریں پھیلا رہے ہیں جن سے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور ایٹمی صلاحیت کی نیت پر سوال اٹھتے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مؤثر انداز میں ان فیک نیوز نیٹ ورکس کی شناخت کرے اور انہیں بے نقاب کرے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی، اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک منظم امت مسلمہ کی غیر موجودگی عالمی طاقتوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیتی ہے۔ ایران پر حملہ ہو یا فلسطین پر مظالم، مسلم دنیا کا ردعمل صرف بیانات تک محدود رہا ہے۔ یہ رویہ عالمی منظرنامے پر مسلم اقوام کی حیثیت کو کمزور کر رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کا کردار ایک تماشائی کا نہیں بلکہ ایک ممکنہ ثالث کا ہے۔ وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ ایران اور عمان کے وزرائے خارجہ سے مسلسل رابطہ رکھا، اور پاکستان نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں بھی متحرک کردار ادا کیا۔ وزیر خارجہ نے بتایا کہ ایران نے پہلا حملہ برداشت کیا، لیکن اگر اسرائیل دوبارہ حملہ نہ کرے تو ایران مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ پاکستان نے اس پیغام کو دیگر ممالک تک پہنچایا اور ثالثی کی پیشکش کی۔یہ پیش رفت اس بات کی غماز ہے کہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر امن کے قیام میں سنجیدہ ہے، اور صرف اپنے دفاع پر انحصار نہیں کر رہا بلکہ سفارتی ذرائع سے کشیدگی کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام طویل جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف بھارت کے ساتھ دفاعی توازن قائم رکھنے کے لیے نہیں، بلکہ کسی بھی خارجی جارحیت کے خلاف ایک مضبوط ڈھال ہے۔
دوسری طرف اسرائیل اپنے ایٹمی پروگرام پر کسی بین الاقوامی ضابطہ اور معاہدوں کا خاطر میں نہیں لاتا جبکہ دوسروں پر مسلط کرنے کی ہٹ دھرمی کررہا ہے۔عالمی برادری نے بھی اسرائیل کی جارحیت پر دوہرا معیار اختیار کر رکھا ہے، جس کی بدولت عالمی سطح پر طاقت کا توازن ہمیشہ غیر منصفانہ رہا، اور یہ بین الاقوامی معاہدے صرف مخصوص اقوام کو فائدہ دیتے رہے ہیں۔
وزیر خارجہ کی جانب سے یہ کہنا کہ "بھارت کچھ کرے گا تو پہلے سے زیادہ جواب ملے گا” ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
پاکستان کو نہ صرف بیرونی خطرات کا سامنا ہے بلکہ اندرونی سطح پر بھی فیک نیوز، سیاسی تقسیم، اور غیر سنجیدہ میڈیا طرزِ عمل نے قومی سلامتی کو چیلنج کیا ہے۔ اسحاق ڈار کی جانب سے بارہا احتیاط کی تلقین اسی تناظر میں ہے کہ غیر مصدقہ اطلاعات نہ صرف قوم میں بے چینی پھیلاتی ہیں بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے تاثر کو بھی مجروح کرتی ہیں۔
یہ وقت ہے کہ میڈیا ہاؤسز، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور عوام الناس خود بھی ان خبروں کو پھیلانے سے قبل ان کی تصدیق کریں۔ بصورت دیگر ہم خود دشمن کے بیانیے کو تقویت دے رہے ہوں گے۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا سینیٹ میں دیا گیا خطاب صرف حکومتی مؤقف کی وضاحت نہیں بلکہ ایک ریاستی پالیسی کا خلاصہ بھی ہے۔ پاکستان نہ جنگ چاہتا ہے نہ اشتعال، لیکن اگر کسی نے پاکستان کی سالمیت کو للکارا تو جواب بھرپور ہوگا۔ یہی پیغام پاکستان کے ایٹمی نظریے کا مرکزی نکتہ ہے۔ ساتھ ہی ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ففتھ جنریشن وارفیئر کے اس دور میں صرف میزائل، ٹینک اور ایٹم بم ہی کافی نہیں۔ سچ، ذمہ داری، اور اتحاد ہی وہ ہتھیار ہیں جو پاکستان کو محفوظ اور باوقار بنا سکتے ہیں۔

Author

  • ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔