سیاسی رہنما عموماً عالمی بحرانوں میں مستقل پالیسی اپناتے ہیں، مگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک غیر روایتی، اکثر متضاد طرزِ قیادت کو اپنایا۔ ٹرمپ نے پاکستان-بھارت کی ثالثی کے انداز کو ایران کے معاملے میں اپنانے کی کوشش کی، مگر ان کے بیانات میں تضاد اور غیر واضح حکمت عملی نے عالمی سطح پر خدشات کو جنم دیا۔
ٹرمپ کا رویہ عمومی سیاستدانوں سے مختلف رہا ہے۔ ان کے بیانات فوری، غیر متوازن، اور اکثر نرگسیت (narcissism) پر مبنی ہوتے ہیں۔ ماہرین نفسیات اور بعض سابق امریکی عہدیداران کے مطابق ان کا طرز عمل خود پرستی اور فیصلہ سازی میں غیر سنجیدگی کی علامات رکھتا ہے۔تاہم بعض ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ یہ طرز عمل ڈونلڈ ٹرمپ نے جان بوجھ کر اپنائے رکھا ہے اس طرح وہ ادمی لیڈرشپ کے ساتھ جو سر کھیلتے ہیں جب اسرائیل نے ایران پر بہیمانہ حملہ کیا تو اس کے جواب میں ایران نے میزائل سے حملے کا نہ صرف جواب دیا بلکہ اپنا دفاع بھی کیا چھوٹے اسرائیل کو جب لگنے لگی تو موصوف امریکی سے بیان دیا کہ وہ ان دونوں فریقوں کے درمیان جنگ بندی کرائیں گے اور اسی طرح اس کی جنگ بندی کرائیں گے جس طرح سے انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کرائی تھی اگلے روز انہوں نے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ ایک مثبت کردار ادا کیا ہے وہ ایران اور اسرائیل جنگ بندی کی کوششیں بھی کر رہے ہیں انہوں نے بعض مسلم ممالک سے اس سلسلے میں تعاون بھی حاصل کیا ہے اسی طرح پاکستان بھر کے درمیان جن بندی کرائی اور کشیدگی کو ختم کرنے کی کاوشیں کی لیکن کوئی اس کی تحسین نہیں کرتا یعنی ان کے اقدام کی تحصیل نہیں کرتا لیکن ان کے اقدام ہیں کیا اگلے روز ہی انہوں نے پھر ایران کے خلاف بیان دے دیا جو دھمکی امیز تھا اب گزشتہ رات عمر اور پھر فرمایا ہے کہ ایران غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے ورنہ انجام کو تیار رہے اگر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کا جائزہ لیا جائے تو بات کچھ سمجھ میں نہیں اتی کہ اخر وہ چاہتے کیا ہیں یا کر کیا رہے ہیں ایک طرف تو انہوں نے کہا کہ وہ ایران اسرائیل جنگ میں ملوث نہیں ہے کسی کا ساتھ نہیں دیں گے بلکہ امن کے لیے کام کریں گے اب جو بیان ہے ان کا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فریق ہیں اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں کیونکہ کیا ڈالنے کی بات فاتح مفتوح سے ڈرتا ہے کیا ڈونلڈ ٹرمپ اتے ہو گئے ہیں ایران مفتوح ہو گیا ہے امریکہ ایران سے ہتھیار ڈالنے کی اور وہ بھی غیر مشروط طور پر ڈالنے کا جو مطالبہ کر رہا ہے وہ کس حیثیت سے کر رہا ہے اس کی کیا پوزیشن ہے پہلے اپنی پوزیشن تو واضح کرے فریق ایران اور اسرائیل ہیں یا وہ تسلیم کر لیں کہ امریکہ بھی اس جنگ میں ملوث ہے اردو میں ایک ضرب المثل ہے بلکہ محاورہ ہے کہ لکھے موسیٰ پڑھے خدا ئی یہاں پر یہ کہا جا سکتا ہے کتنے بولے ڈونلڈ ٹرمپ سمجھیں نیتن یاہو
ٹرمپ کبھی ثالثی کی بات کرتے ہیں، کبھی براہ راست حملے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ایک دن: "ہم ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کرائیں گے۔”
– اگلے دن: "ایران کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے ہوں گے۔”یہ بیان جھاڑ دیایہ تضاد یا تو ایک سوچی سمجھی حکمت عملی (confusion strategy) ہے یا ان کی ذہنی بے ربطی کا عکاس۔اس کو نتن یاہو یہ سمجھ سکتے ہیں کیونکہ دونوں ہی استاد شاگرد ہیں
کسی بھی ثالثی میں توازن اہم ہوتا ہے۔ مگر امریکہ صرف ایران سے مطالبات کر رہا ہے جبکہ اسرائیل کی کھلی پشت پناہی کر رہا ہے۔جس نے میں یہ سہولیات شامل ہیں کہ وہ اسرائیل کو
– اسلحہ کی فراہمی
– انٹیلی جنس تعاون
– ایران پر معاشی و سفارتی دباؤ کے ذریعے اسرائیل کی بھرپور مدد کر رہا ہے اور یہ سب اقدامات اس امر کے غمازی ہیں کہ یہ سب امریکہ کو ایک "غیر اعلانیہ فریق” ثابت کرتے ہیں۔کیا امریکہ اس طرح جانبداری کا کردار ادا کر کے مسلم دنیا کو اپنا چہرہ جو اب مسخرے پن سے لبریز ہو چکا ہے دکھانے کے قابل رہے گا یہ درست ہے کہ اس وقت مسلم دنیا کے پاس وہ طاقت نہیں ہے جس کا اظہار امریکہ اسرائیل یا اس کے حواری کرتے ہیں لیکن قدرت ایک ایسی طاقت ہے جو دنیاوی وسائل سے مبرا ہے اور اس کا تجربہ ان بڑی طاقتوں کو کئی مرتبہ ہو چکا ہے افغانستان میں ویتنام میں کوریا میں دنیا کی بڑی طاقتیں ہونے کا گھمنڈ رکھنے والی امام مملکتیں کیسے ڈھیر ہوئی تکبر کس طرح ملیا میٹ ہوا لیکن انہیں شے تب بھی احساس نہیں ہے کہ وجہ یہ ہے کہ ایسے نظریاتی گھمنڈی قوتیں بے حس و کرتی ہیں یعنی ڈھیر ہوا کرتے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کے گزشتہ شب کے بیان سے جو اثرات اور عالمی تاثر پھیلا ہے وہ اس طرح ہے کہ اس سے
– علاقائی کشیدگی میں اضافہ ہوگا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کشیدگی میں اضافہ ہوا اور صورتحال امن و امان کی نقطہ نظر سے بہت ہی زیادہ تشویش ناک اور خوفناک ہو چکی ہے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکا کے جنگ میں ملوث ہونے سے کہیں تیسری عالمگیر جنگ کا ڈنکا نہ بچ جائے کیونکہ یہ صرف ایران کو جوہری ہتھیاروں سے روکنے کا مشن نہیں ہے بلکہ اس کے دیگر اسباب بھی ہیں وہ یہ ہیں کہ گھمنڈی جو ہمیشہ بزدلانہ فطرت کا مالک ہوتا ہے کسی بھی صورت میں اپنی بزدلی کی فطرت کی وجہ سے نہیں چاہتا کہ اس کے بالمقابل کوئی ائے چنانچہ اس وقت امریکہ کو سب سے زیادہ خطرہ چین روس پاکستان اور کسی حد تک ترکیہ سے جہاں تک ایران کا تعلق ہے وہاں پر اسلامی انقلاب کی جدوجہد سے ہی امریکا جیسی قوت متکبر قوتیں اپنے خواب سے لرز گئی تھی تب سے ہی ایران کے اسلامی انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے برسر پیکار ہو گئی تھی اپنے مفاد کی غرض سے اسلامی دنیا میں تفرقہ بھی پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی وہ اس طرح کہ ایران کے اسلامی انقلاب کو شیعہ فرقہ پرستی کا انقلاب قرار دیتے رہے اور اب بھی دیتے ہیں امریکہ اور اس کے حواری اور تمام ان کا میڈیا جو صہیونیوں کے زد میں ہے وہ ایران کے اسلامی انقلاب کو شیعہ انقلاب کی ضرب لگاتے رہتے ہیں اپنی اسی مضمون سازشوں کی بنیاد پر وہ ایران کو تنہا کرنے کی کاوشوں میں مصروف رہے اور مسلم دنیا سے جس میں خاص طور پر عرب ممالک اور ترکیہ شامل ہیں ان کے درمیان نفرت کی خلیج کو وسیع تر کرتے رہے بہرحال امریکی صدر کا ایران سے یہ مطالبہ کہ وہ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے اب ان کی غیر جانب داری کا نقاب خود ہی انہوں نے اپنے چہرے سے گھسیٹ لیا ہے اور اس طرحامریکا کی ثالثی کی ساکھ متاثر بری طرح متاثر ہوئی اس بات کو ایک نو عمر بچہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ ثالثی وہی کر سکتا ہے جو غیر جانبدار ہو اور جب کوئی کسی فریق حمایت میں بیان بازی کرے یا کوئی ایسا قدم اٹھائے جس سے کسی ایک فریق کو فائدہ ہو وہ پھر ثالث بننے کا اہل نہیں رکھتا نہ اس میں اہلیت پائی جاتی ہے چنانچہ دنیا میں امریکہ کی غیر جانبداری پر سوال اٹھا ہے
ڈونلڈ ٹرمپ کے متضاد بیانات اور امریکہ کا کردار، ایران اسرائیل کشیدگی میں ایک غیر جانبدار ثالث کے بجائے ایک فریق کے طور پر ابھرتا ہے۔ یہ طرزِ حکمرانی دنیا میں امن کے بجائے مزید کشیدگی پیدا کر سکتا ہے، اور امریکہ کی عالمی ساکھ پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔دو ٹوک پالیسی تو یہ ہوتی ہے جیسا کہ پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز ہی اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان سے بعض دنیاوی طاقتوں نے اصرار کیا تھاکہ پاکستان ایران کے حق میں ووٹ استعمال نہ کریں لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور ثابت کر دیا کہ پاکستان کا اس جنگ میں کیا موقف ہے
امریکی صدر کے تازہ ترین موقف پر ان کو یہی خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اپ بھی پڑھیے اور لطف اندوز ہو یئے
کبھی امن کا راگ، کبھی جنگ کا نعرہ،
یہ کیسا ہے لیڈر؟ یہ کیسا خسارہ؟
کہیں ثالثی کی بات، کہیں ہتھیار کی مار،
گرگٹ بھی شرمائے، یہ کیسا کردار؟
Author
-
صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔
View all posts