واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والی غیر معمولی ملاقات نے عالمی سیاست کے منظرنامے میں نئی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس ملاقات کو محض سفارتی خیر سگالی کا مظاہرہ قرار دینا اس کی اہمیت کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہوگا۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب دنیا کئی محاذوں پر کشیدگی کا شکار ہے۔ یہ ملاقات ایک نئے عالمی اور علاقائی توازن کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ امریکی تھنک ٹینکس، میڈیا اور سفارتی حلقے اس ملاقات کو جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی ممکنہ نئی حکمت عملی کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔
ملاقات کا ایک اہم پہلو پاک بھارت کشیدگی سے متعلق تھا۔ نریندر مودی کی حکومت میں اقلیتوں کے خلاف مظالم، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور ایل او سی پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ایسے موضوعات ہیں جن پر پاکستان کا موقف واضح اور دو ٹوک رہا ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے نہ صرف امریکی قیادت کو ان حالات سے آگاہ کیا بلکہ انہیں یہ باور کرایا کہ پاکستان اپنی سالمیت اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
مشرق وسطیٰ میں ایران پر اسرائیلی جارحیت عالمی امن کے لیے خطرے کی گھنٹی بن چکی ہے۔ ایران پر اسرائیلی حملے اور اس کے ردعمل میں ایران کی جوابی کارروائیاں نہ صرف خلیجی ریاستوں بلکہ عالمی معیشت کو متاثر کر رہی ہیں۔ ایسے میں پاکستان کا کردار بطور ثالث اور امن پسند ریاست کے ابھر کر سامنے آیا ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ، جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے، اسے اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ اشتعال انگیزی سے باز رہے۔ مشرق وسطیٰ میں امن کا قیام صرف اس وقت ممکن ہے جب طاقت کے استعمال کے بجائے سفارتی حل کو ترجیح دی جائے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان کئی مذہبی، ثقافتی اور تجارتی روابط ہیں جنہیں کسی بھی صورت جنگی ماحول کا شکار ہونے سے بچانا ضروری ہے۔ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسی پالیسی کا حصہ نہیں بنے گا جو اسرائیل کی جارحانہ توسیع پسندی کو فروغ دے۔
ملاقات کے دوران افغانستان کی صورتحال پر بھی غور کیا گیا، چونکہ افغانستان کی صورتحال اب بھی غیر مستحکم ہے۔ طالبان حکومت بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ نہیں، مگر عملی طور پر وہی ملک کے تمام معاملات چلا رہی ہے۔ پاکستان جو طویل عرصے سے افغانستان میں قیامِ امن کا داعی رہا ہے اب بھی افغان عوام کی مدد اور دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں پیش پیش ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ اگر طالبان کو اعتدال پر مائل نہ کیا گیا تو یہ خطہ ایک بار پھر دہشت گردی کا گڑھ بن سکتا ہے۔ تاہم ایک مثبت اشارہ یہ ملا کہ حالیہ ہفتوں میں طالبان کے سپریم لیڈر کی جانب سے پاکستان مخالف کارروائیوں کو غیر شرعی قرار دیا گیا ہے جو ایک اہم سفارتی اور نظریاتی کامیابی ہے۔
ملاقات میں صرف جغرافیائی سیاست پر ہی بات نہیں ہوئی بلکہ اقتصادی تعاون، دفاعی شراکت داری اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی جیسے اہم امور بھی زیر بحث آئے۔ پاکستان اور امریکہ ماضی میں کئی مواقع پر انسداد دہشت گردی میں قریبی شراکت دار رہے ہیں اور اب اس شراکت داری کو نئے خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ معاشی تعاون کے ذریعے اپنی معیشت کو سہارا دے سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کاروباری سوچ اور اقتصادی مفادات کے تناظر میں یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو وسعت دینے میں دلچسپی رکھیں گے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کو معمولی سفارتی سرگرمی سمجھنا حقیقت سے نظریں چرا نے کے مترادف ہوگا۔ یہ ملاقات دراصل اس امر کی علامت ہے کہ پاکستان بین الاقوامی سفارتی بساط پر ایک نئے انداز سے قدم رکھ رہا ہے جہاں وہ نہ صرف اپنے مفادات کا دفاع کرے گا بلکہ ایک فعال ثالث اور امن پسند ریاست کے طور پر بھی ابھرے گا۔ یہ ملاقات ایک نئے اعتماد، نئی حکمت عملی، اور علاقائی توازن کی سمت میں پیش رفت کی علامت ہے۔
یہ امر غور طلب ہے کہ امریکی صدر نے جی سیون سربراہی اجلاس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات سے انکار کیا اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ملاقات کے لیے
دورہ مختصر کر کے سیدھے واشنگٹن پہنچیں جس سے انڈین لابی کو شدید سفارتی دھچکا لگا۔ بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے بظاہر خاموشی ہے، مگر اندرونی ذرائع کے مطابق، نئی دہلی میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ اس سارے تناظر میں، پاکستانی عسکری قیادت سے ملاقات دراصل مودی سرکار کو ایک "سفارتی تھپڑ” کی مانند ہے ، بغیر کچھ کہے، سب کچھ کہہ دینا۔
ٹرمپ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ “وار پریذیڈنٹ” نہیں بلکہ “ڈیل میکر” ہیں اور پاکستان سے بہتر ڈیل کیا ہو سکتی ہے، جو چین، ایران، افغانستان، اور روس سب سے بیک وقت بات کر سکتا ہے۔ اس ملاقات کے اثرات بہت وسیع اور گہرے ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ نئے اعتماد کی بنیاد رکھے، بھارت کی جارحیت کو بین الاقوامی فورمز پر بے نقاب کرے، افغانستان میں قیامِ امن کے لیے عالمی حمایت حاصل کرے،ایران اسرائیل کشیدگی میں توازن اور ثالثی کا کردار ادا کرے اور سب سے بڑھ کر اپنی معاشی بہتری کے لیے نئے مواقع تلاش کرے۔ اگر پاکستان اس موقع کو دانشمندی سے استعمال کرے تو یہ ملاقات تاریخ کے اہم موڑ پر پاکستان کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ بھارت کے لیے یہ ایک تلخ یاد دہانی ہے کہ اصل اثرورسوخ خاموشی سے حاصل کیا جاتا ہے، ہال بھر کے نعروں اور جھوٹے بیانیے سے نہیں۔ امید ہے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بحال رکھنے میں مثبت کردار ادا کرے گی۔
Author
-
ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:
View all posts