ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ نے دنیا کو نئی سمت میں دھکیل دیا ہے۔ یہ محض دو ممالک کے درمیان عسکری تنازعہ نہیں بلکہ ایک ایسا بحران ہے جو دنیا بھر کے طاقتور ممالک کو اپنی خارجہ پالیسیوں پر ازسرِنو غور کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اس نئے عالمی تناظر میں پاکستان ایک ایسی ابھرتی ہوئی ریاست کے طور پر سامنے آ رہا ہے جو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور بین الاقوامی سفارتی محاذ پر مؤثر کردار ادا کر رہا ہے۔
پاکستان نے حالیہ برسوں میں اپنی سفارت کاری کو جس سنجیدگی اور مہارت کے ساتھ استعمال کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان مستقبل میں مزید بین الاقوامی محاذوں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھائے گا۔ ایران اسرائیل جنگ نے عالمی طاقتوں کو ایک بار پھر صف بندی پر مجبور کر دیا ہے اور پاکستان اس بدلتی ہوئی صف بندی میں متوازن، ذمہ دار اور اثر انگیز کردار ادا کرنے کے لیے پوری طرح تیار نظر آ رہا ہے۔
دنیا میں بڑھتی ہوئی یکطرفہ پالیسیوں، مغربی دباؤ اور دوہرے عالمی معیارات کے خلاف مزاحمت کے لیے نیا سفارتی بلاک بننے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ چین، روس اور ترکی جیسے ممالک پہلے ہی امریکی اثر و رسوخ سے آزاد پالیسیوں کے خواہاں ہیں۔ پاکستان جو ان تینوں ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہے، اس اتحاد کا اہم ستون بن سکتا ہے۔
چین کے ساتھ پاکستان کا تعلق محض اقتصادی نوعیت کا نہیں بلکہ اس میں اسٹریٹجک گہرائی بھی شامل ہے۔ سی پیک صرف منصوبہ نہیں بلکہ ایک وژن ہے۔ جو مستقبل کے جغرافیائی اور اقتصادی اتحاد کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ روس بھی پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون کو وسعت دے رہا ہے جبکہ ترکی نے حالیہ برسوں میں پاکستان کے ساتھ مذہبی، ثقافتی اور عسکری تعلقات کو نئی جہت دی ہے۔ ان چاروں ممالک کے درمیان ایک فعال، مؤثر اور متوازن اتحاد مستقبل میں مغربی دنیا کے سیاسی و سفارتی غلبے کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پاکستان ہمیشہ سے مسلم دنیا کو متحد دیکھنے کا خواہاں رہا ہے۔ مسئلہ فلسطین پر پاکستان کا موقف واضح، مستقل اور غیر متزلزل ہے۔ ایران اسرائیل جنگ نے امت مسلمہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور اس وقت ایک متحدہ آواز کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان او آئی سی اور اقوامِ متحدہ جیسے عالمی اداروں میں مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے مستقل آواز اٹھا رہا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی حالیہ بین الاقوامی ملاقاتیں اس امر کی گواہ ہیں کہ پاکستان صرف احتجاج پر یقین نہیں رکھتا بلکہ عملی سفارت کاری کے ذریعے مسئلے کے حل کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ مسلم دنیا کی قیادت کے خلا کو پاکستان پُر کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ بشرطیکہ مسلم ممالک اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مشترکہ پالیسی اپنائیں۔
ایران اسرائیل جنگ نے عالمی طاقتوں کو دو صفوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں جو اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور دوسری طرف وہ ممالک ہیں جو عالمی انصاف، انسانی حقوق اور فلسطینی عوام کے دفاع کی بات کر رہے ہیں۔ پاکستان ان میں سے ایک ہے۔
ماضی میں پاکستان کو صرف جنوبی ایشیائی تناظر میں دیکھا جاتا تھا۔جہاں اس کا مقابلہ صرف بھارت سے تصور کیا جاتا تھا۔ مگر اب عالمی سطح پر پاکستان کو ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست، سفارتی ثالث، اور عالمی توازن کے نگہبان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے ایک تاریخی تبدیلی ہے، جس نے اس کی شناخت اور اہمیت کو نئی بلندیوں پر پہنچایا ہے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر کی عسکری قیادت اور وزیر اعظم شہباز شریف کی سیاسی بصیرت اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کی دو بنیادیں ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے نہ صرف ملک کے دفاعی نظام کو مضبوط کیا بلکہ بین الاقوامی تعلقات میں عسکری وقار بھی بحال کیا۔ ان کی امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ایک تاریخی واقعہ ہے جو پاکستان کی عالمی حیثیت کا عکاس ہے۔
دوسری جانب شہباز شریف نے سفارتی سطح پر وہ توازن قائم کیا ہے جس کی کمی ماضی میں شدت سے محسوس کی جاتی تھی۔ ان کی حکومت عالمی اداروں، عالمی طاقتوں اور مسلم دنیا کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی پوزیشن مستحکم ہو رہی ہے۔
یہ پاکستان کے لیے فیصلہ کن لمحہ ہے۔ ایک ایسا وقت جب ہمیں بحیثیت قوم خود پر اعتماد کرتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ہم امن، انصاف اور برابری کے اصولوں پر قائم ہیں۔ ہمیں داخلی طور پر اتحاد و یکجہتی اور خارجی طور پر تدبر، دانشمندی اور بروقت فیصلوں کی ضرورت ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم عالمی معاملات میں صرف تماشائی نہ رہیں بلکہ مؤثر فریق کے طور پر شامل ہوں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں تسلسل، مقصدیت اور ہم آہنگی لائے تاکہ عالمی سطح پر اس کی قیادت کا تسلسل قائم رہے۔
موجودہ حالات، چیلنجز اور مواقع کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان عالمی سیاست کے نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ جہاں وہ محض دفاعی کردار ادا نہیں کر رہا بلکہ سفارتی محاذوں پر قائدانہ حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ایران اسرائیل جنگ، مغربی پالیسیوں کی دوغلی نوعیت اور مسلم دنیا کی بیداری پاکستان کے لیے ایک نیا موقع فراہم کر رہے ہیں۔
اگر پاکستان نے اپنے قدم اسی طرح جما رکھے تو وہ نہ صرف عالمی طاقتوں کا شراکت دار بنے گا بلکہ ایک نئی عالمی قیادت کی صورت میں بھی ابھر سکتا ہے۔ یہ صرف ایک خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے جو تدبر، استقامت اور قومی اتحاد سے ممکن ہے۔
Author
-
سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025بیورو چیف، پی این این، پشاور
جنوری 2023 تا جنوری 2024بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
16 فروری 2005 تا 21 جون 2008رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
فروری 2000 تا 30 نومبر 2003