Nigah

ایٹمی طوفان کے دہانے پرجنیوا بیٹھک

atomic

تحایران کے ایٹمی پروگرام کا مسئلہ دو دہائیوں سے بین الاقوامی سیاست کا اہم حصہ چلا رہا ہے۔ 2015 میں JCPOA(مشترکہ جامع عمل کا منصوبہ) کے نام سے ایک تاریخی معاہدہ ہوا تھا جس میں ایران، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین شامل تھے۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے میں اقتصادی پابندیوں میں نرمی کا وعدہ لیا تھا۔لیکن 2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر انکار کر دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ "ایران کو مالا مال کر رہا ہے” اور "بہترین صورت میں بھی صرف اس کے ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو مؤخر کر رہا ہے”۔ اس کے بعد امریکہ نے ایران پر سخت پابندیاں دوبارہ لگا دیں۔
2021 میں صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے JCP0A (مشترکہ جامع عمل کا منصوبہ) کو بحال کرنے کی کوشش کی لیکن یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکے۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ ایران نے IAEA(بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی) کی تحقیقات بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا جبکہIAE نے 2019 میں ایران کے تین غیر اعلانیہ مقامات تیز شدہ یورینیم کے نشانات دریافت کیے تھے۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے اس مطالبے کو رد کر دیا کیونکہ وہ اایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کا معاہدہ کے تحت ایران کی ذمہ داریوں سے الگ مسئلہ سمجھتے تھے۔

12 اپریل 2025 کو صدر ٹرمپ نے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کو خط لکھا جس میں ایران کو ایٹمی امن معاہدے کے لیے 60 دن کی مہلت دی گئی۔ یہ ایک نئی سفارتی کوشش تھی کیونکہ ٹرمپ نے پہلے کبھی براہ راست ایران سے مذاکرات نہیں کیے تھے۔جون 2025 میں حالات نے انتہائی خطرناک موڑ لیا جب اسرائیل اور ایران کے درمیان براہ راست جنگ شروع ہو گئی۔ اسرائیل نے ایران میں ایٹمی سہولات پر حملوں کی دھمکی دی اور ایران نے جوابی حملوں کا اعلان کیا۔ اسرائیل نے 16 جون کو تہران میں ایرانی ریاستی میڈیا کی عمارت پر حملہ کیا جسے اسرائیل نے "دہشت گردی سے منسلک پروپیگنڈا انفراسٹرکچر (پروپیگنڈے کی بنیادی سہولات)” قرار دیا۔ ایران نے جوابی کارروائی میں اسرائیل کے بیئر شیوا شہر میں مائیکروسافٹ کے دفتر والے علاقے پر میزائل حملہ کیا۔ایران اور اسرائیل جنگ کی تفصیلات میڈیا پر ا چکی ہیں ہر شخص اس سے واقف ہو چکا ہے اور بڑی گمبھیر حالات ہیں اور پریشان کن صورتحال ہے اور اس جنگ کی توالت سے دنیا میں ایک بڑی کمائی کے امکانات بھی موجود ہیں امریکا کھل کر اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے لیکن ابھی تک اس نے عملی طور پر اسرائیل کے ساتھ جنگ میں حصہ نہیں یہ بات اس نے کہی جا سکتی ہے کہ ایران نے بھی ابھی تک یہ الزام عائد نہیں کیا ہے بلکہ تنبیہ کی ہے کہ امریکہ نے اگر ایران پر حملہ کیا پیران جوابی کاروائی کرے گا جس طرح کہ اس نے اسرائیل کو جواب دیا ہے جنگ کی صورتحال دیکھ کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے یورپی اتحادیوں سے رابطہ کر کے جنیوا میں ایک بیٹھک کا اہتمام کرایا تاکہ کوئی حل تلاش کیا جا سکے لیکن امریکہ چونکہ ایک فریق ہے اسرائیل کے احوال ہونے کے ناتے اور امریکی صدر کی باتیں بھی ہوچ پوج ہیں چنانچہ وہ مذاکرات کے لیے ایران کے سامنے نہیں ا سکتے کیونکہ ایران کے ساتھ ان کے مذاکرات ہو رہے تھے کہ اسرائیل نے کمر میں چھرا گھونپ دیا جس سے مذاکرا بھی بڑے متاثر ہوئے اور ایران نے عبدہ سے مذاکرات ختم کر دینے کا اعلان کر دیا ایسی صورت میں جنیوا کے یہ بیٹھک انتہائی نازک حالات میں منعقد ہوئی جب اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ جاری تھی۔ اس بیٹھک میں شامل تھےیران کی جانب سےوزیر خارجہ عباعراقچی یورپی ممالک کی جانب سے، برطانیہ کے وزیر خارجہ،جرمنی کے وزیر خارجہ فرانس کے وزیر خارجہبیٹھک کے اہداف کیا تھے اس بارے میں کوئی تفصیلات مصدقہ کا نہیں ہے تا ہم ایران کے وزیر خارجہ نے اس بیٹھک میں شریک ہونے سے پہلے ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ ایران ان یوپی ممالک کے وزرائے خارجہ سے بات چیت کرنے جا رہا ہے مذاکرات کرنے نہیں جا رہا اس سے مذاکرات نہ سمجھا جائے صرف بات چیت سمجھی جائے البتہ یورپی سے رہے بتا رہے ہیں کہ یورپی ممالک نے ایران کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو صرف مدنی (امن پسند) مقاصد کے لیے استعمال کرے اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے فوری جنگ بندی کی کوشش پر بھی بات چیت ہوئی لیکن اطلاع دیے ہیں ایران نے غیر مشروط جنگ بندی قبول کرنے سے انکار کیا ان کا کہنا ہے کہ مغربی دنیا اسرائیل کی مذمت کرے اور اس کے غیر قانونی اقدام کے خلاف کاروائی کریں بیٹھے کم مقصد مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تناؤ کو کم کرنا تھالیکن بظاہر کوئی نتیجہ اخذ نہیں ہو سکا البتہ کہا جا رہا ہے کہ ایران نے رابطہ برقرار رکھنے اور بات چیت جاری رکھنے کی حامی بھر لی ہے
یہ بیٹھک کئی گھنٹوں تک جاری رہی لیکن کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا۔ ایران کے وزیر خارجہ عراقچی نے اس بیٹھک کو "سفارت کی خیانت” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی ممالک نے ایران پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جبکہ وہ اسرائیل کے حملوں کو روکنے میں ناکام رہے۔
بیٹھک کی ناکامی کے اسباب، اسرائیل کی مداخلتجب یہ بیٹھک جاری تھی، اسرائیل نے ایران پر نئے حملے کیے جس سے ایران کا موقف سخت ہو گیا
ایران نے کہا کہ جب تک اسرائیل کے حملے جاری ہیں، وہ کوئی مذاکرات نہیں کر سکتا ادھر امریکی صدر ٹرمپ جو یورپین یونین روس اور دیگر ممالک کے ذریعے ایران سے مذاکرات اثر نو شروع کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے یا بات چیت کروا رہا ہے یا رازی کرانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس کی اپنی یہ حالت ہے کہ صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر حملے کے لیے دو ہفتے انتظار کرے گا گویا امریکہ دو ہفتے تک انتظار کرے گا کہ ایران اس کی خواہشات کے مطابق عمل پیرا ہوتا ہے یعنی ورنہ پھر وہ بھی ایران پر جنگ مسلط کر دے گا یہ ایک طرح سے امریکہ کی دھمکی ہے

اکتوبر 2025 میں JCPOA (مشترکہ جامع عمل کا منصوبہ) کی آخری پابندیاں ختم ہو جائیں گی اور اس کے بعد یورپی ممالک کے پاس "SNIPBACK (فوری واپسی) کے ذریعے پابندیاں لگانے کا موقع ختم ہو جائے گاموجودہ صورتحال یوں ہے کہ جنیوا بیٹھک کے بعد سے حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ ایران نے صاف کہا ہے کہ اسرائیل کے حملوں کے بعد وہ ایٹمی مذاکرات معطل کر دیتا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے حملے جاری رکھے گا۔ ادھرامریکی موقف یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ دو ہفتے سفارتی کوششوں کا انتظار کرے گا، لیکن اگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو وہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر حملے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے امریکی سلامتی کونسل سے ایران کے خلاف کاروائی کرنے کی پہلے سے منظوری لے رکھی ہے اور اس منظوری کے کاغذات صدر کے دستخط کے لیے ٹرمپ کی بیس پر پڑے ہوئے ہیں جس پر وہ کسی وقت بھی اپنے دستخط ثبت کر سکتے ہیں

مستقبل کے امکانات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر حالات جو کہ تو رہے تو یہ جنگ عالمی رخ اختیار کر سکتی ہے اس وقت ایران کے موقف کی حمایت 27 اسلامی ممالک ان کے علاوہ چین اور روس شمالی کوریا بھی کر رہا ہے لیکن جنگ میں ان کا کیا حصہ ہوگا یا کیا کردار ہوگا اس بارے میں مکمل خاموشی ہےماہرین کا کہنا ہے کہ اب JCPOA(مشترکہ جامع عمل کا منصوبہ) کی واپسی کا امکان بہت کم ہیں کیونکہ ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو کافی آگے بڑھا لیا ہے ایسا عمران مخالفین کہہ رہے ہیں جبکہ ایران بار بار کہہ رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام ایٹمی ہتھیاروں کے لیے نہیں ہے اس کے علاوہدونوں طرف سے اعتماد مکمل ختم ہو گیا ہےجنگ نے مذاکرات کو ناممکن بنا دیا ہے،نئے معاہدے کا امکان کے بارے میں
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ JCPOA 2.0 (دوسرا ورژن) کی شکل میں نیا معاہدہ ہو سکتا ہے جوایران کو THRESH HOLD STATE (یٹمی دہلیز تک پہنچنے والا ملک) کے طور پر تسلیم کرے،لیکن اسے ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکےـ اگر یہ جنگ جاری رہی تو ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کا فیصلہ کر سکتا ہےـ اسرائیل ایران کی ایٹمی سہولات پر بڑا حملہ کر سکتا ہے – امریکہ بھی اس جنگ میں براہ راست شامل ہو سکتا ہے
20 جون کی جنیوا بیٹھک ایک آخری امید تھی جو ناکام ہو گئی۔ یورپی ممالک کی یہ کوشش اس وقت کی گئی جب دونوں ممالک کے درمیان جنگ جاری تھی جو اس کی ناکامی کا بنیادی سبب تھا۔ لیکن اس کے ساتھ اس امر کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ کن لوگوں نے ایران کے ساتھ بات چیت کی وہ لوگ جو پہلے سے اسرائیل کے حامی مددگار ہے اور اس کے حواری ہیں بات چیت تو غیر جانبدار فریقوں کے ساتھ ممکن ہو سکتی ہے مطلب یہ ہے کہ اگر امریکہ سنجیدہ ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ایران کے ساتھ ان ممالک کے ذریعے رابطہ قائم کریں جن پر ایران کا اعتماد ہو اور ساتھ ہی امریکہ کا بھی ان پر اعتماد ہو یورپ کے جن ممالک کے وزیر خارجہ نے بیٹھک میں حصہ لیا وہ تو خود فریق ہیں ایران کے خلاف پابندی لگانے میں وہ پیش پیش رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ نے اس بیٹھک کو "سفارت کی خیانت” قرار دیا کیونکہ یورپی ممالک اسرائیل کے حملے روکنے میں ناکام رہے۔
اب حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ مذاکرات کا کوئی فوری امکان نظر نہیں آ رہا۔ ایران نے ایٹمی مذاکرات مکمل طور پر معطل کر دیے ہیں اور اسرائیل مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ صورتحال پوری دنیا کے لیے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ یہ ایٹمی جنگ کا خطرہ بڑھا رہی ہے۔پھر یہ بھی دیکھنے میں ایا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ کسی نے بھی جنگ بندی کی بات نہیں کی اور نہ کسی نے اسرائیل پر دباؤ ڈالا جنگ تو اسرائیل نے شروع کی تھی لہذا چاہیے یہ تھا کہ ان یورپی ممالک کو اسرائیل پر دباؤ ڈالنا چاہیے تھا کہ ہم ایران سے مذاکرات کر رہے ہیں مسئلے کا حل تلاش کر رہے ہیں لہذا تم جنگ ملتوی کر دو لیکن ایسی کوئی شنید سامنے نہیں ائی حالات جگر گو بھی ہیں اور تشویشناک ناک بھی ہیں امریکہ کو اسرائیل سے استفسار کرنا چاہیے تھا کہ جب وہ ایران کے ساتھ جوہری افزودگی پر بات چیت کر رہا تھا تو اس نے حملہ کیوں کر دیا لیکن کسی نے بھی اسرائیل سے باز پرس نہیں کی

Author

  • صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔