Nigah

نازک لمحے میں مسلم امہ کا امتحان

gaza-israel

جون 2025 کا مہینہ مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور عالمی سفارتکاری کے لیے ایک آزمائش سے کم نہیں۔ ایک طرف امریکہ نے ایران کی تین ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرکے ایک نئی کشیدگی کو جنم دیا ہے، تو دوسری طرف پاکستان نے نہ صرف سفارتی محاذ پر مسلم امہ کی رہنمائی کا فریضہ ادا کیا بلکہ کشیدگی کم کرنے میں بھی ذمہ دارانہ کردار نبھایا۔ ان سب کے بیچ او آئی سی کے حالیہ اجلاس میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی تقریر نے عالمی منظرنامے پر ایک واضح اور جاندار مؤقف پیش کیا جس نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے نئے رخ کی عکاسی کی۔
امریکہ کی جانب سے ایران کی تین حساس ایٹمی تنصیبات پر حملہ، عالمی سفارتی و عسکری نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے۔ ان حملوں کو ’پری ایمپٹیو اسٹرائیک‘ کا نام دیا جا رہا ہے، جس کا مقصد مبینہ ایرانی ایٹمی پروگرام کو روکنا بتایا جا رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یکطرفہ عسکری کارروائی کسی مسئلے کا پائیدار حل ہو سکتی ہے؟ بلکہ یہ جارحیت کے زمرےمیں آتی ہے اور عالمی امن پر سوالیہ نشان ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ نے اسے "کھلی اور ناقابل معافی جارحیت” قرار دیا ہے، جبکہ پاکستان سمیت متعدد ممالک نے امریکہ کے اقدام کو اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
خطے میں پہلے ہی ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے، اور اب یہ امریکی اقدام نہ صرف تیل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کرے گا بلکہ مشرقِ وسطیٰ کو ایک نئی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کر سکتا ہے۔
ایسے حساس موقع پر استنبول میں او آئی سی کا اجلاس نہایت اہمیت کا حامل تھا، جہاں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اپنی تقریر میں نہ صرف مسئلہ کشمیر بلکہ فلسطین اور مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال پر بھی دوٹوک مؤقف اختیار کیا۔ اسحاق ڈار نے واضح کیا کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں وہی حالات ہیں جو اسرائیل نے فلسطین میں پیدا کیے ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کر رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پچھلے ہی ماہ پاکستان اور آزاد کشمیر پر بھارت نے حملہ کیا، جو نہ صرف عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک خطرناک نظیر بھی قائم کرتی ہے۔
او آئی سی کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو اس کا کردار اکثر زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھا۔ تاہم پاکستان کی کوشش ہے کہ اسے ایک فعال اور مؤثر ادارہ بنایا جائے۔ اسحاق ڈار کی تقریر میں بار بار "مشترکہ اقدام” کی بات اسی طرف اشارہ ہے۔
فلسطین اور کشمیر، دونوں مقامات پر مسلمانوں کو بدترین ریاستی جبر کا سامنا ہے۔ مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسلم ممالک کی اکثریت ان مظالم کے خلاف عملی سطح پر کوئی مربوط حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ اب جبکہ ایران پر بھی حملے ہو چکے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ سعودی عرب، ترکی، پاکستان، ملائشیا اور قطر جیسے بااثر ممالک آگے بڑھ کر مؤثر ردعمل دیں۔
پاکستان نے حالیہ مہینوں میں بین الاقوامی سطح پر جس سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے، وہ قابلِ ستائش ہے۔ بھارت کے پہلگام حملے کے بعد پاکستان پر لگائے گئے الزامات پر وزیراعظم نے نہ صرف شفاف تحقیقات کی پیشکش کی بلکہ عالمی برادری کو اس بات پر قائل کیا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے۔ مزید برآں، پاکستان نے ایران اسرائیل جنگ میں اصولی موقف اپناتے ہوئے اسرائیل کو جارح قرار دیا۔ایران کی اخلاقی اور سفارتی حمایت کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ دوست ممالک کی مدد سے تنازع ختم کرنے کی کوششوں کا بھی آغاز کردیا تاکہ خطے کو جنگ کی مزید تباہ کاریوں سے بچایا جا سکے۔
جنوبی ایشیا میں جنگ کے بادل اسوقت تک منڈلاتے رہیں گے جب تک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں کیاجاتا۔اسحاق ڈار نے بجا طور پر اس بات پر زور دیا کہ بھارت کی جانب سے کشمیری عوام کے ساتھ کیا جانے والا ظلم، دنیا کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عالمی برادری اگر مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرتی رہی تو یہ مسئلہ نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک مستقل خطرہ بنا رہے گا۔
یہ وقت ہے کہ مسلم دنیا سنجیدگی سے سوچے کہ آیا وہ صرف قراردادیں اور مذمتی بیانات دیتی رہے گی یا عملی اقدامات کی طرف بھی بڑھے گی۔اسرائیل کی کھلی جارحیت، بھارت کی ہٹ دھرمی اور امریکہ کی عسکری یکطرفہ پالیسیوں کا توڑ صرف اسی وقت ممکن ہے جب مسلم ممالک باہم متحد ہو کر مشترکہ اسٹریٹجک فریم ورک وضع کریں، موئثر سفارتکاری اور اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ پاکستان نے اپنے حصے کا کردار نبھایا ہے اب او آئی سی کو چاہیے کہ وہ محض اجلاسوں تک محدود نہ رہے بلکہ عالمی اداروں میں مؤثر آواز بلند کرے، ایران کے خلاف حملے کی مذمت کرے، اور مسئلہ کشمیر و فلسطین پر عملی اقدامات کرے۔ورنہ مسلم امہ کے اتحاد کا خواب حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے گا۔ اسحاق ڈار کی تقریر، امریکہ ایران کشیدگی، اور مقبوضہ کشمیر و فلسطین کی صورتحال نے اس وقت مسلم دنیا کو ایک نیا موقع دیا ہے کہ وہ بیدار ہو، یکجا ہو، اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرے۔ پاکستان کی قیادت نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر نیت صاف ہو، وژن ہو اور عوامی تائید حاصل ہو تو بڑے سے بڑا چیلنج بھی موقع میں بدلا جا سکتا ہے۔

Author

  • ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔