ایران اور اسرائیل درمیان جنگ بندی کا اعلان 24 جون 2025 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا، جس کا پس منظر یوں ہے بیان کیا جاتا ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بند ہونے کی اطلاع امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنےTruth Social”کی ویب سائٹ کے ذریعے دنیا بھر کو یہ فراہم کی کہ دونوں ملکوں نے جنگ بندی قبول کر لی ہے،اور دونوں ملکوں یعنی ایران اور اسرائیل نے "12‑دن کی جنگ” ختم کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔جس تحت ایران پہلے 12 گھنٹے جنگ بندی کرے گا، اور پھر اس کے بعد اسرائیل 12 گھنٹے کے لیے شمولیت اختیار کرے گا، اور اس طرح مجموعی طور پر جنگ بندی کا عمل مکمل ہو جائے گاـ امریکی صدر کہ ٹویٹ کا انگریزی متن یہ ہے
"agreed by and between Israel and Iran that there will be a Complete and Total CEASEFIRE (in approximately 6 hours from now, when Israel and Iran have wound down and completed their in‑progress, final missions!), for 12 hours, at which point the War will be considered, ENDED!”
"Officially, Iran will start the CEASEFIRE and, upon the 12th Hour, Israel will start the CEASEFIRE and, upon the 24th Hour, an Official END to THE 12 DAY WAR will be saluted by the World.”
"On the assumption that everything works as it should, which it will, I would like to congratulate both Countries, Israel and Iran, on having the Stamina, Courage, and Intelligence to end, what should be called, ‘THE 12 DAY WAR’.”
"This is a War that could have gone on for years, and destroyed the entire Middle East, but it didn’t, and never will! God bless Israel, God bless Iran, God bless the Middle East, God bless the United States of America, and GOD BLESS THE WORLD!”
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انگریزی متن کا اردو ترجمہ یوں بنتا ہے کہ
"تمام لوگوں کو مبارکباد!”
"اسرائیل اور ایران کے درمیان مکمل اور جملہ جنگ بندی پر مکمل اتفاق ہوگیا ہے (تقریباً 6 گھنٹے بعد نافذ ہوگی، جب دونوں ملک اپنے جاری، آخری آپریشنز ختم کرلیں گے)، یہ جنگ بندی 12 گھنٹے برقرار رہے گی، اور اسی کے بعد یہ جنگ ختم سمجھ جائے گی۔پھر”
"سرکاری طور پر، ایران جنگ بندی شروع کرے گا اور 12 گھنٹے بعد اسرائیل بھی جنگ بندی میں شامل ہوگا، اور 24 گھنٹے کے بعد دنیا ’12 روزہ جنگ’ کے باضابطہ اختتام کا استقبال کرے گی۔”
"اگر سب کچھ اپنی مناسبت سے کام کرتا ہے، جیسا کہ ہونا چاہیے اور ہوگا، تو میں دونوں ممالک، اسرائیل اور ایران، کو اس ہمت، جرات اور عقل مندی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اسے ختم کیا، جسے ’12 دن کی جنگ’ کہا جانا چاہیے۔
"یہ ایک ایسی جنگ تھی جو برسوں چل سکتی تھی اور پورا مشرق وسطیٰ تباہ ہوسکتا تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا، اور کبھی نہیں ہوگا! خدا اسرائیل کو سلامت رکھے، خدا ایران کو سلامت رکھے، خدا مشرق وسطیٰ کو سلامت رکھے، خدا امریکہ کو سلامت رکھے، اور خدا پوری دنیا کو سلامت رکھے!”
ذرائع کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے درمیان براہ راست رابطہ ہوا، اور وائٹ ہاؤس کی ٹیم ، خاص طور پر وائس پریزیڈنٹ جی ڈی وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور خاص ایلچی اسٹیو وٹکوف – نے ایران سے بھی رابطہ کیا تاکہ شرائط طے ہوں ۔
جس میں چند اہم نکتے یہ ہیں جن پر توجہ ضروری ہے
1. ایران نے اخری اطلاع تک رسمی طور پر جنگ بندی تسلیم نہیں کی۔ ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ "کوئی جنگ بندی معاہدہ نہیں ہوا” لیکن یہ بھی کہا کہ اگر اسرائیل نے اپنی "غیر قانونی کارروائی ایران کے صبح چار بجے کے وقت تک روک دی تو جنگ بندی ممکن ہے . یہ ایک مرحلہ وار عارضی جنگ بندی معلوم ہوتی ہے— پہلے ایران 12 گھنٹے جنگ بندی کرے گا تاکہ پہلا مرحلہ مکمل ہو، پھر اسرائیل یہ سلسلہ اپنی طرف سے شروع کر کے 12 گھنٹے کے بعد مکمل جنگ بندی فرض ہو جائے گی ۔
ثالثی میں امریکہ اور قطر نے مرکزی کردار ادا کیا۔ قطر کے وزیراعظم نے تہران سے براہ راست رابطہ کیا تاکہ جنگ بندی کی شرائط طے ہو سکیں، اور وائٹ ہاؤس اہلکاروں نے اس عمل کی نگرانی کی ۔البتہ اب تک شرائط منظر عام پر نہیں ا سکی ہیں
پس منظر اور مقصد یہ بیان کیے جاتے ہیں فریقین کے مابین مکمل جنگ بندی ہے یا نہیں، ابھی الجھن ہے۔ بنیادی نکتہ امریکی دباؤ کے ذریعے ایک وقتی جنگ بندی پیدا کرنا تھا، تاکہ فوری طور پر محاذ بند ہو اور مزید تباہی سے بچا جا سکے۔
– ٹرمپ نے اپنے سیاسی کیریئر میں ایک "امن شکن” کے طور پر اپنی امیج کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے—انہوں نے یہ بیج بھی بو دیا کہ امریکا نے ثالثی کی ہے اور "12‑دن کی جنگ” ختم کر دی ہے ۔– خطے میں بڑھتی تناؤ، مہاجرین کا بحران، اور اقتصادی اثرات نے دباؤ بڑھا دیا، جس نے عالمی برادری کی جانب سے فوری کارروائی کی ضرورت ظاہر کی۔
– ایران نے اعلان کیا کہ ایرانی وقت کے صبح چار بجے تک ایران نے حملے بند کیے تو اسرائیل بھی اپنی کارروائی کم کر دے گا۔ یعنی ایران جنگ بندی کی شرائط پر فی الوقت عمل کر رہا ہے، لیکن مقامی طور پر "معاہدہ” تسلیم نہیں کیا ۔لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایران نے اپنی برتری برقرار رکھی—انہوں نے امریکی اور اسرائیلی ہدفوں پر میزائل حملے بھی کیے اور اپنے دفاعی مطالبات برقرار رکھے مریکہ کا کردار اور مقاصد با ظاہر یہ نظر ارہے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اس معاہدے میں مرکزی کردار ادا کیا ، اس میں امریکی ثالثی اہم تھی ،نیویارک سے بنائے رابطوں اور قطر کے ذریعے ثالثی بمعنی ہوئی اور امریکہ کی سیاسی و سفارتی پیش کش سامنے آئیں ۔
اس کا مقصد دوہرا تھا: ایک طرف بازاروں میں عدم استحکام کو روکنا، دوسری طرف اپنے سیاسی بیانیے میں خود کو "امن لانے والا” دکھانا۔
– یہ بھی واضح ہے کہ عالمی میڈیا اور عالمی رہنماؤں (مثلاً یورپی یونین اور چین) نے بھی دباؤ بڑھایا، تاکہ انسانی بحران میں کمی کی راہ ہموار ہو
اس جنگ بندی کے بارے میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہایران کی شکست ہے یا اس نےتسلیم کر لیا ہے؟ ایسا کہنا بے جاء ہوگا کہ ایران نے "بغیر کسی شرط کے ہر چیز تسلیم کر لی۔ ایران نے صرف حملہ بند کرنے کے اظہار کے طور پر جھکنا قبول کیا، لیکن اس نے اپنی فوجی و سیاسی پوزیشن برقرار رکھی۔
–رسمی جنگ بندی معاہدہ ابھی رسمی نہیں ہوا اور مذاکرات کے اگل مرحلے کا آغاز باقی ہے۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس معاہدے کے اعلان سے پہلے جب امریکہ نے ایران کی تین چوہری تنصیبات کو نیست و نابود کرنے کا دعوی کر دیا تھا اس وقت یہ سمجھا جا رہا تھا کہ ایران اب امریکہ کو بہت ہی تگڑا اور تلخ جواب دے گا ، ایسا اس نے اعلان بھی کیا تھا لیکن ایران نےجوہری تنصیبات پر حملے کا بہت ہی کمزور جواب دیا،بقول امریکی صدر کےایران نے قطر میں امریکی ملٹری بیس پرحملےکی پیشگی اطلاع دی تھی جس کا ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کاشکریہ بھی ادا کیا ، ایران اگر چاہتا تو وہ امریکی بحری بیڑے جو سمندر میں ادھر ادھر موجود تھے ان پر حملہ کر سکتا تھا لیکن اس نے قطر میں امریکی ایئر بیس پر حملہ کیا جہاں کم از کم 10 ہزار امریکی اہلکار اپنے خاندانوں کے ساتھ مقیم ہیں اس امر کی تصدیق تو نہیں ہو سکی کہ امریکہ کو ایران نے اپنے حملے کس طرح اگاہ کیا تہم بعض اطلاعات کے مطابق ایران نے قطر کو اگاہ کر دیا تھا اور قطر نے امریکہ کو بتا دیا تھا جس کے فوری بعد امریکہ نے وہاں سے اپنے اہلکاروں کا انخلا کر دیا ، وہاں پر موجود اپنے ہوائی جہاز بھی نکال لے گئے کہا جاتا ہے کہ ایران نے اس ایئر بیس پر بلاسٹک میزائل ماریں جن کو قطر کے دفاعی سسٹم نے ناکارہ بنایا تاہم چند میزائل ایئر بیس پر گرے جس سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوا ایک حصہ کے مطابق یہ بتایا جاتا ہے کہ کہ ایک بلڈنگ کو شدید نقصان پہنچا کوئی جانی اور کوئی دفاعی نقصان نہیں ہوا اس عمل کو عوام طاقتوروں کا کھیل قرار دے رہے ہیں اس کے ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فرماتے ہیں کہ وہ دونوں ممالک، اسرائیل اور ایران کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے استقامت، ہمت اور ذہانت کا مظاہرہ کیا، جسے ’12 روزہ جنگ’ کہا جانا چاہیے۔امریکی صدر نے قطر میں اپنے فوجی اڈے پر حملے کے بارے میں جہاں یہ کہا کہ یہ کمزور حملہ تھا وہاں یہ بھی کہا کہ انہیں پہلے سے توقع تھی اور امریکہ نے بہت مؤثر طریقے سے اس کا مقابلہ کیا۔ٹرمپ نے بتایا کہ ایران کی جانب سے 14 میزائل فائر کیے گئے، جن میں سے 13 کو مار گرایا گیا، ایک میزائل کو چھوڑدیاگیاجو غیر دھمکی آمیز سمت میں جا رہا تھا۔ساقی انہوں نے یہ بھی کہا کہاوراہم بات یہ ہے کہ لگتا ہے ایران نے اپنا غصہ نکال لیا ہے جس کے بعد امید ہے کہ اب مزید نفرت نہیں بڑھے گی۔وہ توقع رکھتے ہیں کہ اب ایران خطے میں امن اور ہم آہنگی کی طرف بڑھ سکے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق امریکہ اسرائیل کو بھی ایسا ہی کرنے کی ترغیب دے گا۔
اسرائیلی میڈیا نے انتہائی معتبر سکیورٹی حکام کے حوالے سے خبر جاری کی ہے کہ اسرائیل ایران کے خلاف مکمل جنگ بندی کرنے کو تیار ہے
اسرائیلی میڈیارپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیل چند دنوں میں ایران کےخلاف جنگ ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیل ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے اور ایران کے موجودہ نظام کو تبدیل کرنے میں ناکام رہا۔کیونکہ اسرائیل نے بار بار ریجیم چینج کی بات کی اور اس سلسلے میں سابق ایرانی بادشاہ رضا شاہ پہلوی کے بڑے صاحبزادے جنہیں شاہ کا ولی عہد قرار دیا جاتا ہے وہ سامنے لایا گیا تھا جو با ظاہر ناکام ہو گیا ہے لیکن ایک بات ضرور ہے کہ اس لڑائی میں اندازہ ہوا ہے کہ اسرائیل نے اپنا ایک بہت بڑا نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے اور اسرائیل کو جو حملہ کرنے میں کامیابیاں حاصل ہوئی اس کی وجہ یہی نیٹ ورک ہے اور اس نیٹ ورک کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس میں زیادہ تر بھارتی اور افغان باشندے شامل ہیں دوسری حقیقت جو مصدقہ ثابت ہوئی وہ یہ کہ پاکستان میں بھارت جو تخریب کاریاں اور دہشت گردی کرتا رہا ہے اور علیحدگی پسند لوگوں کی پشت بانی کرتا رہا ہے وہ بھی ایران کے راستے سے ہوتی رہی ہے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں ایران بھی شریک تھا لیکن ایران کی سرزمین ضرور استعمال ہوئی ہے کلھبوشن اس کا زندہ ثبوت بھی موجود ہے چنانچہ اب پہلی فرصت میں ایران کو چاہیے کہ وہ ان تمام معاملات کا تدارک کرے کیونکہ اس کو بھی اپنی ہی سرزمین سے ہی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا ہے جہاں تک ایران کی طرف سے امریکی جارحیت کا جواب دینے کا مسئلہ ہے تو امریکی میڈیا کے مطابق امریکہ کو یہ محسوس تھا کہ کہ ایران ایسی ویسی ہی کارروائی کرے گا جس طرح کہ اس نے2020 میں بھی اسی طرح کے ردعمل کا اظہار کیا تھا جب امریکا نے ایک فضائی حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کر دیا تھا۔ امریکہ کا یہ خیال درست نکلا
جنگ بندی کے اعلان کے فوری بعد دنیا میں بہت سی مثبت پیشرفت دیکھنے میں ائی مثال کے طور پر قطر میں امریکی ائیربیس پر ایرانی حملے کے بعد عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں گر گئیں ،امریکی اسٹاک ایکسچینج میں تیزی پیدا ہو گئی جبکہ امریکی ائیر بیس پر ایرانی حملے کے بعد عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں 6 فیصد گر گئیں۔
برطانوی خام تیل کی قیمت 4.84 ڈالر فی بیرل کم ہوگئی جس کے بعد برطانوی خام تیل کی نئی قیمت 72.17 ڈالر فی بیرل ہوگئی۔امریکی خام تیل کی قیمت 4.67 ڈالر کم ہونے کے بعد 69.17 ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے
ان حالات و واقعات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جنگ صرف ان لوگوں کے لیے تباہی کا باعث نہیں ہے جن کے درمیان جنگ ہو رہی ہے بلکہ اس کے برے اثرات ساری دنیا پر پڑتے ہیں اور امن قائم ہونے سے ساری دنیا پر مثبت نتائج برامد ہوتے ہیں اور ترقی کی راہیں کھل جاتی ہیں جنگ بندی ہونا بہت اچھی بات ہے تاہم 12 روز کی جنگ میں جو کچھ ہوا اس کا نتیجہ دیکھ کر لوگوں کے شعور میں یہی بات ا رہی ہے کہ یہ صرف کھیل تھا جس میں شامل ہونے والوں نے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو ازمایا بس اس کے علاوہ کچھ نہ تھا تاہم اس سے نقصانات بہت ہوئے درجنوں افراد لقمہ اجل ہو گئے عمارتوں کی تباہی قیامت خیز رہی ہر سو ظلمت ہی ظلمت رہا اب توقع کی جا سکتی ہے کہ جنگ میں شریک ممالک احساس ذمہ داری محسوس کریں گے اور اپنی اپنی ذمہ داری کو پورا کریں گے
Author
-
صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔
View all posts