مشرقِ وسطیٰ کی فضا ایک طویل کشمکش، گولیوں کی گھن گرج اور تباہ کن میزائل حملوں کے بعد بالآخر کچھ پرسکون دکھائی دیتی ہے۔ ایران اور اسرائیل کے مابین بارہ دن کے دوران حملے جو بین الاقوامی امن کے لیے شدید خطرہ بن چکے تھے بالآخر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش اور اسرائیل کی جارحیت کے خلاف عالمی ردعمل کی بدولت جنگ بندی کی صورت میں تھم گئے ہیں۔ اس سفارتی پیش رفت میں اقوامِ متحدہ اور دیگر ممالک کے علاوہ پاکستان کی نتیجہ خیز سفارتی کوششوں کو نظر انداز کرنا قرین انصاف نہیں۔پاکستان نے سفارتی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی ممالک کے اندر موجود تعلقات کا مؤثر استعمال کیا۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی جانب سے سفارتی محاذ پر جو متوازن بیانیہ اپنایا گیا، اس نے نہ صرف اسلامی دنیا میں پاکستان کا تاثر مضبوط کیا بلکہ مغربی طاقتوں کو بھی باور کروایا کہ پاکستان اب محض ایک علاقائی طاقت نہیں بلکہ عالمی اسٹریٹجک امور میں متحرک فریق ہے۔ پاکستان کی یہ کوششیں محض رسمی نہیں تھیں، بلکہ ان میں سنجیدہ اور پیشہ ورانہ سفارت کاری جھلکتی رہی۔ پاکستانی فوجی قیادت نے خلیجی ممالک میں موجود اہم عسکری رابطوں کے ذریعے خطے کو کسی بڑی جنگ کی لپیٹ میں آنے سے بچایا۔
پاکستان کی کوشش یہ رہی کہ ایک جانب مسلم اُمہ کو تقسیم سے بچایا جائے اور دوسری جانب ایران کو مکمل تنہائی سے نکالا جائے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک نازک لمحہ تھا۔ امریکہ کی جانب سے مسلسل "ڈو مور” کے بیانیے کے باوجود پاکستان نے کسی ایک بلاک کی کھلم کھلا حمایت کرنے سے گریز کیا اور غیرجانبداری کے ساتھ سفارتی کردار ادا کیا۔ او آئی سی کے حالیہ اجلاس میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی تقریر کو عالمی سطح پر بہت اہمیت دی گئی۔ انہوں نے نہ صرف ایران اسرائیل کشیدگی کے خاتمے کی حمایت کی بلکہ فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی بھی کیا۔ اس موقع پر سعودی عرب، ترکی، ایران اور انڈونیشیا نے پاکستان کے موقف کی تائید کی۔ پاکستان کا یہ متوازن اور غیرجذباتی طرزِ عمل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اب اسلامی دنیا میں کسی فرقہ وارانہ یا نظریاتی لکیر پر نہیں چل رہا، بلکہ اپنے قومی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئےامتِ مسلمہ کے اتحاد کی بات کر رہا ہے۔
پاکستان کے اس کردار کا معاشی فائدہ یہ ہوا کہ تیل کی عالمی قیمتوں میں استحکام آنے کے بعد پاکستانی معیشت پر دباؤ میں کمی آئی۔ ساتھ ہی مشرقِ وسطیٰ میں مقیم پاکستانی محنت کشوں کو بھی اطمینان حاصل ہوا کہ ان کے روزگار پر خطرت کے منڈلاتے بادل چھٹ گئے ہیں۔
اسٹریٹجک اعتبار سے پاکستان نے اپنی فوجی اور سفارتی حیثیت کو تسلیم کروایا ہے۔ اقوام متحدہ کے نمائندے نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ "پاکستان کی دانشمندانہ ثالثی نے ایک بڑی جنگ کو ٹالا ہے۔” تاہم، اس جنگ بندی کو مکمل امن کا پیش خیمہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان بنیادی تنازعات، خاص طور پر فلسطین کی پالیسیوں کے حوالے سے، اب بھی برقرار ہیں۔ پاکستان کو اپنی پوزیشن واضح اور مسلسل برقرار رکھنی ہوگی۔ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ عالمی سطح پر اسے ایک سنجیدہ طاقت تسلیم کیا جائے، تو اسے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ وسطی ایشیا، افریقی مسلم ریاستوں اور جنوبی ایشیائی تنازعات میں بھی متوازن کردار ادا کرنا ہو گا۔
اسرائیل اور ایران کے مابین جنگ بندی، بظاہر ایک وقتی سکون کی صورت میں سامنے آئی ہے، مگر اس کے پیچھے پاکستان کی مستقل مزاج، خاموش اور مؤثر سفارت کاری پوشیدہ ہے۔ اب یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ اس کامیابی کو صرف وقتی تعریف پر ختم نہ کرے، بلکہ اسے طویل المدتی عالمی اسٹریٹجک کردار میں تبدیل کرے۔ یہی وقت ہے کہ پاکستان اپنی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کرے، امن کا علمبردار، توازن کا محافظ اور امت کا سفارتی راہنما۔
Author
-
ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:
View all posts