دل پر بوجھ بہت تھا… کس سے بانٹتا؟
میرے پاس تو وہی ہے… جو میری روح کا حصہ ہے… جو خود ادھورا ہے مگر میری تکمیل کرتا ہے۔
میں اس کو بتا رہا تھا کہ کیسے ماؤں کے ہاتھوں سے بچے چھوٹ کر پانی کی نذر ہو رہے تھے… اور آنکھیں خشک تھیں۔
میں اسے بتا رہا تھا کہ بہن کا ہاتھ چھوٹا، وہ پانی میں ڈوبنے لگی… تو اس کی آنکھوں میں بھائی کے لیے کچھ خواب تھے۔
میں اسے سنا رہا تھا کہ جب چار سال کا بچہ ڈوب رہا تھا تو دوسرے کنارے پر اس کا باپ فقط حسرت کے پتھر کا ایک مجسمہ تھا، جس کے پاؤں میں بے بسی کی بیڑیاں تھیں۔
میں اسے بتا رہا تھا کہ ایک خاتون ڈوبنے سے پہلے صرف اپنے باپ سے ایک دفعہ فون پر بات کرنا چاہتی تھی… اور باپ ڈسکہ میں فون سائلنٹ پر لگا کر نماز کے بعد اسی کے لیے خدا سے دنیا کی ہر خوشی مانگ رہا تھا… بات نہ ہو سکی۔
میں اسے یہ بھی بتا رہا تھا کہ جب ایک باپ ڈوب رہا تھا تو اس کے ذہن میں صرف یہ تھا کہ چھٹیوں کے بعد بچوں کی فیس ادا کرنی ہے۔
میں اسے بتا رہا تھا کہ جب وہ چھوٹی بچی ڈوب رہی تھی تو سوچ رہی تھی کہ سوات کی تصویریں اپنے سہیلیوں کو کیسے دکھائے گی۔
میں اسے بہت کچھ بتانا چاہ رہا تھا… لیکن اس سے پہلے ہی اس نے مجھے گلے لگا لیا…
میں سمجھ چکا تھا کہ اس کی آنکھیں بھی میری طرح خشک تھیں، لیکن گلا نمکین آنسوؤں سے بھر چکا تھا۔
قارئینِ محترم!
نصاب کی کتابوں میں بہادری کی فرضی کہانیاں ہمیشہ سے شامل کی جاتی رہی ہیں۔ بچپن میں جب ہم یہ کہانیاں پڑھتے تو ہمارے ذہن میں منظر واضح ہو جاتا، اور اس معصوم عمر میں ہمیں فرضی اور حقیقی کا فرق معلوم نہیں ہوتا تھا۔ ہر کہانی کو ہم حقیقت سمجھ بیٹھتے، یہی وجہ تھی کہ یہ کہانیاں ہمارے ذہن پر گہرے اثرات چھوڑ جاتی تھیں۔
سانحہ سوات سیلاب دیکھ کر مجھے بچپن میں پڑھی ایک کہانی یاد آ گئی، شاید آپ نے بھی اسے پڑھا ہو — ایک گاؤں کا ایک بہادر بچہ جو اپنے والدین کا ہاتھ بٹانے کے لیے جنگل سے لکڑیاں لاتا تھا۔ ایک دن جب وہ لکڑیاں اکٹھی کر کے گھر لوٹ رہا تھا، تو اس نے دیکھا کہ ریلوے ٹریک کا ایک حصہ سیلاب میں بہہ چکا ہے۔ اس نے سوچا کہ جلد ہی یہاں سے ریل گزرے گی، چنانچہ اس نے کچھ فاصلے پر لکڑیاں رکھ دیں تاکہ ڈرائیور انہیں دیکھ کر ریل روک دے۔ پھر وہ اپنے لال رنگ کے کپڑے کو ہوا میں لہراتے ہوئے ٹریک کے درمیان کھڑا ہو گیا۔ جیسے ہی ریل قریب آئی، ڈرائیور نے اسے دیکھا اور بریک لگا دی۔ جب ڈرائیور نے وجہ پوچھی تو بچے نے ٹریک کے خراب ہونے کی بات بتائی۔ اس طرح اس معصوم بچے نے سینکڑوں مسافروں کی جان بچا لی۔
یہ کہانی بچوں کو یہ سبق دینے کے لیے شامل کی جاتی تھی کہ مشکل حالات میں بہادری سے کام لینا چاہیے، عوام کی جان بچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں، نہ کہ صرف تماشائی بن کر کھڑے رہنا چاہیے۔
لیکن سوات سیلاب کے موقع پر ہم نے اس کے برعکس منظر دیکھا۔ تقریباً دو سو افراد حادثے کے مقام پر موجود تھے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ ویڈیوز بنانے میں مصروف تھے۔ اگر دریا میں بہتی لکڑیاں و درخت نظر آتیں تو شاید کچھ لوگ انہیں پکڑ کر ٹمبر مارکیٹ میں بیچنے کے لیے کود پڑتے، مگر کسی نے ڈوبتے ہوئے انسانوں کو بچانے کی ذرا برابر کوشش نہیں کی۔
ایسے مواقع پر سرکاری مدد کا انتظار کرنے کے بجائے عوام کو خود آگے بڑھنا چاہیے تھا۔ اگر فوری اقدامات کیے جاتے تو شاید 18 قیمتی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔ ایک رضاکار "حلال خان” نے اپنی ہمت سے تین افراد کو بچا لیا، لیکن افسوس کہ باقی لوگوں نے صرف تماشا دیکھا۔
یہ المیہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ بہادری صرف کتابوں تک محدود نہیں ہونی چاہیے، اسے حقیقی زندگی میں بھی اپنانا چاہیے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو صرف کتابی بہادری نہ پڑھائیں، بلکہ عملی طور پر ان میں حوصلہ، ہمت اور فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کریں، تاکہ آئندہ ایسے حالات میں وہ صرف تماشائی بن کر نہ رہ جائیں، بلکہ انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے آگے بڑھیں۔